Maktaba Wahhabi

500 - 924
سپرنٹنڈنٹ جیل اپنے دفتر سے باہر چلا گیا تھا۔ اس سے چند روز بعد ہمیں رہا کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد بٹھنڈہ ریلوے اسٹیشن پر ہماری پنڈت جواہر لال نہرو سے ملاقات ہوئی۔ یہ ۱۹۴۶ء کے جون کے پہلے ہفتے کا واقعہ ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ سے ملاقات کا احوال: سوال: کیا آپ کی ملاقات کبھی مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ سے بھی ہوئی؟ ذرا تفصیل سے بتائیں ۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ: مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کی کتابیں ’’قولِ فیصل‘‘ اور ’’تذکرہ‘‘ وغیرہ میں نے چھوٹی عمر میں پڑھی تھیں ۔ ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کے بھی کئی شمارے پڑھے اوربہت متاثر ہوا تھا۔ مولانا رحمہ اللہ کی تصویر بھی اخباروں میں چھوٹی عمر میں دیکھی، جو بہت اچھی لگی تھی۔ دیکھنے کا اتفاق فروری ۱۹۳۹ء میں لاہور موچی دروازے کے باہر جلسۂ عام میں ہوا اور اُن کی تقریر سنی۔ انھوں نے ۳۵ منٹ تقریر کی۔ بہت بڑا مجمع تھا۔ ان کی تقریر سے لوگ بہت متاثر ہوئے تھے۔ مجمع بالکل ساکت و صامت اور ہر شخص ہمہ تن گوش۔ تقریر سے پہلے ملک نصراﷲ خاں عزیز مرحوم نے ان کے متعلق نظم پڑھی تھی۔ سٹیج سیکرٹری مولانا سید داود غزنوی رحمہ اللہ تھے، سٹیج سیکرٹری اور مقرر دونوں نہایت خوبصورت تھے۔ مجھے ان کی تقریر سن کر بے حد خوشی ہوئی، اس سے ایک دن پہلے لاہور کے ناصر باغ میں مولانا رحمہ اللہ کی زیارت کی تھی۔ لیکن تقریر اب سنی جو پہلی بھی تھی اور آخری بھی۔ یہ تقریر مجھے یاد ہوگئی تھی، جو میں نے بہت لوگوں کو سنائی۔ اخباروں میں بھی چھپی تھی، لیکن سننے کا لطف اور تھا، پڑھنے کا اور۔ آٹھ سال بعد ۲۲؍ جون ۱۹۴۷ء کو مولاناآزاد رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی، اس وقت وہ ہندوستان کی عبوری حکومت میں وزیر تھے اور سرکاری کوٹھی نمبر ۲۲پرتھوی راج روڈ(نئی دہلی)میں مقیم تھے۔ سکھ اس حکومت کو ’’ڈنگ ٹپاؤ راج‘‘ کہا کرتے تھے۔ ملاقات کرنے والے ہم چار آدمی تھے: مولانا معین الدین لکھوی، قاضی عبید اﷲ، مولانا محمد عبدہ الفلاح رحمہم اللہ اور میں ۔ مولانا آزاد رحمہ اللہ کی خدمت میں ہم صبح سوا پانچ بجے حاضر ہوئے تھے،چھے بجے تک وہاں رہے۔ پون گھنٹے کی اس ملاقات میں انھوں نے بہت سی باتیں کیں ، جن کا تعلق ملک کی آزادی سے بھی تھا، قیامِ پاکستان سے بھی تھا، برصغیر کے مسلمانوں سے بھی تھا اور تقسیم کے نتیجے میں ہندوستان کے مسلمانوں کا جن مصائب سے دو چار ہونے کا خطرہ تھا، مولانا نے ان کی طرف بھی اشارہ کیا۔ اس ملاقات میں مولانا آزاد رحمہ اللہ کو بہت قریب سے دیکھا اور سنا۔ وہ نہایت صفائی سے بات کرتے اور خوب صورت الفاظ اور دلنشین اسلوب میں اپنا نقطۂ نظر بیان فرماتے تھے۔ وہ بہت بڑے عالم اور بہت بڑے سیاستدان تھے۔ ان کی گفتگو کا ہر لفظ الہامی معلوم ہوتا تھا۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے لیاقت علی خاں سے کہا تھا کہ پنجاب اور بنگال کی تقسیم کو تسلیم نہ کرو، پورے بنگال اور پورے آسام کے مطالبے پر قائم رہو، کیوں کہ ان علاقوں میں مجموعی حیثیت سے مسلمان اکثریت میں ہیں ۔ انھوں نے فرمایا کہ لیاقت علی خان میری بات مان گئے تھے، لیکن آگے منوا نہ سکے۔
Flag Counter