Maktaba Wahhabi

504 - 924
بات ماننے کے موڈ میں نہیں تھے۔ میں خاموش ہو گیا، گھر آکر ’’قصوری خاندان‘‘ پر لکھنا شروع کر دیا۔ دن کو دفتر(ادارہ ثقافتِ اسلامیہ)جاتا تھا اور رات کو یہ کتاب لکھتا تھا۔ آٹھ روز میں کتاب مکمل ہو گئی اور میں نے مسودہ پڑھ بھی لیا۔ ایک روز ملاقات کے لیے میرے مرحوم دوست قاضی محمد اسلم سیف آئے۔ انھوں نے مسودہ دیکھا تو کہا: یہ مجھے دے دو، میں چھاپ دوں گا۔ میں نے انھیں مسودہ دے دیا اور ’’قصوری خاندان‘‘ کے نام سے کتاب چھپ گئی۔ یہ ہے اس کتاب کے لکھنے اور چھپنے کا پسِ منظر۔ مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ سے ان حضرات کے جو گہرے اور مخلصانہ مراسم تھے، اس کے تمام پہلو اس کتاب میں آگئے ہیں ۔ یہ کتاب تقسیمِ ملک سے قبل کے بہت سے سیاسی واقعات کی صراحت کرتی ہے۔ اساتذہ کرام کا ذکرِ جمیل: سوال: اپنے اساتذہ کے بارے میں کچھ بتائیے؟ بھٹی صاحب رحمہ اللہ: میرے اساتذہ کا حلقہ بہت محدود ہے۔ قرآنِ مجید اور اردو کی بعض کتابیں اپنے دادا مرحوم سے پڑھیں ۔ اس کے بعد دیگر علوم میں میرے اوّلین استاذ مولانا عطاء اﷲ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ تھے۔ پھر حضرت حافظ محمد گوندلوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہما اللہ سے حصولِ فیض کیا۔ یہ جلیل القدر علمائے دین تھے۔ تدریس، تحقیق اور تصنیف میں ان کا مقام بہت بلند تھا۔ یہ میرے نہایت مشفق اساتذہ تھے۔ میں نے ان تینوں بزرگوں پر لکھا ہے، مولانا عطاء اﷲ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ پر میرا ایک مضمون میری کتاب ’’نقوش عظمتِ رفتہ‘‘ میں چھپا ہے اور ایک طویل مضمون ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کے اس خاص نمبر میں شائع ہوا، جو مولانا عطاء اﷲ حنیف رحمہ اللہ کے حالات پر مشتمل ہے۔ ’’نقوش عظمتِ رفتہ‘‘ میں حافظ محمد گوندلوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہما اللہ پر میرے مضامین چھپے ہیں ، جن میں ان کے ضروری حالات معرضِ بیان میں آگئے ہیں ۔ مدارس سے فارغ التحصیل علمائے کرام کی قلم و قرطاس سے دوری کیوں ؟ سوال: عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ مدرسوں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد علمائے کرام خطابت کی طرف جاتے ہیں یا درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوتے ہیں ، مگر آپ نے اس عام روش سے ہٹ کر قلم و قرطاس سے ناتا جوڑا، اس کی کیا وجہ ہے؟ بھٹی صاحب رحمہ اللہ: مروجہ علوم سے فراغت کے بعد مجھ پر دو دور آئے۔ ایک دور قیامِ پاکستان سے پہلے کا ہے اور ایک بعد کا۔ قیامِ پاکستان سے پہلے کے دور میں ، میں نے تدریس بھی کی، خطابت سے بھی تعلق قائم کیا اور مختلف شہروں میں گھومتا پھرتا بھی رہا۔ قلم و قرطاس سے رابطہ پیدا کرنے کو بھی جی چاہتا تھا، لیکن اس کے مواقع میسر نہ تھے۔قیامِ پاکستان کے بعد مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کی تاسیس ہوئی تو مجھے اس کا آفس سیکرٹری بنایا گیا۔ پھر اگست ۱۹۴۹ء میں اخبار ’’الاعتصام‘‘ جاری ہوا تو مجھے اس کا معاون مدیر مقرر کیا گیا، اس طرح میرا رجحان کلی طور پر تحریر و
Flag Counter