Maktaba Wahhabi

505 - 924
نگارش کی طرف ہو گیا اور میں نے اسی کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دے لیا۔ اس سلسلے میں مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ نے میری بڑی راہنمائی کی اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ اس طرح جو میرا ذوق تھا، وہی میرا پیشہ بن گیا اور میں نے اپنے آپ کو اسی راہ پر لگا دیا۔ مجھے تحریر کے بھی دو ادوار سے واسطہ پڑا۔ ایک دور ’’الاعتصام‘‘ کا تھا۔ وہ صحافتی دور تھا۔ اس میں سیاسی بحثیں ، مذہبی جھگڑے، ایک دوسرے پر تنقید وغیرہ تمام اصنافِ تحریر اور اقسامِ نگارش شامل تھیں ۔ دوسرا دور ’’ادارہ ثقافتِ اسلامیہ‘‘ کا تھا۔ اس میں نہ روزہ مرہ پیش آنے والی سیاسی بحثیں ، نہ مذہبی جھگڑے، نہ مسلکی اسلوب کی تنقید سے کوئی تعلق، خالص علمی اور تحقیقی نہج سے سفرِ تحریر طے کیا جاتا تھا۔ اﷲ نے میری دونوں ادوارِ تحریر میں مدد فرمائی۔ اس میں میرا کوئی کمال نہیں ۔ یہ محض اﷲ تعالیٰ کا فضل اور اساتذہ کرام کی حسنِ تربیت کا نتیجہ تھا اور نتیجہ ہے۔(ماخوذ۔ انٹرویو: ماہنامہ ’’علم و آگہی‘‘۔ فیصل آباد، اگست ۲۰۱۰ء) جماعت اہلِ حدیث کے پہلے اور آج کے دور میں بنیادی فرق کیا ہے؟ سوال: آپ مولانا داود غزنوی رحمہ اللہ کے ساتھ ایک طویل عرصہ تک رہے۔ مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے ساتھ بھی کام کیا، جمعیت اہلِ حدیث کے ناظم دفتر کی ذمے داریاں ادا کیں ، ’’الاعتصام‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے ابتدائی دنوں کے آپ عینی شاہد ہیں ۔۔۔۔ اس دور میں اور آج کے دور میں آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں ؟ بھٹی صاحب رحمہ اللہ: اس دور میں اور آج کے دور میں کوئی برابری ہے ہی نہیں ، فرق ہی فرق ہے۔ کہاں وہ، کہاں یہ۔۔۔ اس دور کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میں نفاذِ اسلام کے حوالے سے پہلی میٹنگ مولانا داود غزنوی رحمہ اللہ کے گھر پر ہوئی۔ پھر اس کے بعد اسلامی آئین کے سلسلے میں جتنی بھی میٹنگیں ہوئیں یا حکومتوں کے ساتھ مذاکرات ہوئے، اس میں مولانا داود غزنوی رحمہ اللہ شریک ہوا کرتے تھے۔ وہ جو ۳۱ علما کی میٹنگ ہوئی تھی، وہ بھی مولانا داود غزنوی رحمہ اللہ کے گھر ہی ہوئی تھی۔ پھر ایوب خان نے جب ۱۹۶۲ء کا آئین دیا تو اس کے بارے میں جو گفتگو ہوئی، وہ بھی سب سے پہلے مولانا داود غزنوی رحمہ اللہ کے گھر ہوئی۔ علامہ علاؤ الدین صدیقی مولانا کے پاس تشریف لائے اور ۱۹۶۲ء کے آئین کے حوالے سے مولانا سے گفت و شنید کی اور دونوں بزرگوں نے اس سلسلے میں دوسرے اہم قائدین سے رابطوں کا پروگرام بنایا۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ بھی اس کے بعد مولانا داود غزنوی رحمہ اللہ کے گھر تشریف لائے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس وقت کے جمعیت اہلِ حدیث کے قائدین تمام تحریکوں کے اندر مرکزی رول ادا کرتے تھے۔ اس دور میں کوئی میٹنگ اس وقت تک شروع نہیں ہوتی تھی، جب تک مولانا داود غزنوی رحمہ اللہ تشریف نہ لے آتے۔ بڑے بڑے سیاسی و مذہبی لوگ چل کر اُن کے پاس آتے تھے۔ مولانا احمد علی لاہوری، مولانا داود غزنوی رحمہما اللہ کے مقتدی تھے۔ مفتی محمد شفیع، مولانا ابوالحسنات، مفتی محمد حسین اور مفتی جعفر حسین رحمہم اللہ اور حافظ کفایت حسین(شیعہ راہنما)سمیت تمام مکاتبِ فکر کے بڑے بڑے علما چل کر مولانا داود غزنوی رحمہ اللہ کے ہاں
Flag Counter