Maktaba Wahhabi

506 - 924
تشریف لاتے۔ اب آپ اندازہ کریں کہ صورتحال کیا ہے؟ کون سا ایسا راہنما ہے جس کے پاس چل کر تمام مکاتبِ فکر کے لوگ آتے ہوں ؟ اس سے راہنمائی حاصل کرتے ہوں ؟ مولانا غلام غوث ہزاروی بڑے متعصب دیوبندی عالم تھے، لیکن مولانا داود غزنوی رحمہ اللہ کے ساتھ ان کے تعلقات کی یہ صورت تھی کہ خود چل کر ان کے گھر تشریف لاتے تھے ۔مولانا داود غزنوی رحمہ اللہ ایک مرجع تھے۔ بڑے بڑے لوگ ان کے ہاں آتے تھے۔ دراصل وہ بڑے لوگ تھے، ان کی ورکنگ کمیٹی میں بھی بڑے بڑے لوگ تھے، مثلاً: مولانا محمد علی قصوری، مولانا محی الدین احمد قصوری، مولانا محمد حنیف ندوی، مولانا اسماعیل ذبیح، مولانا محمد یونس دہلوی، مولانا عطاء اللہ حنیف اور مولانا عبیداللہ احرار رحمہم اللہ جیسے لوگ ورکنگ کمیٹی میں شامل تھے۔ کتابوں میں تاریخ و علمائے کرام کے سوانح حالات کا تذکرہ اور یادداشتیں : سوال: آپ جب کسی موضوع پر لکھتے ہیں ، جیسے شخصی خاکے ہیں ، ان میں تاریخوں کے تذکرے ہوتے ہیں ، بعض دلچسپ واقعات بھی ہوتے ہیں ۔ باقاعدہ تاریخ اور سَن بھی بسا اوقات دیے ہوتے ہیں ، تو کیا آپ نے باقاعدہ واقعات نوٹ کر کے رکھے ہیں یا محض یادداشت کی بنا پر لکھتے ہیں ؟ بھٹی صاحب رحمہ اللہ: میرے پاس کچھ بھی لکھا ہوا نہیں ، نہ ہی میں کچھ لکھ کر رکھتا ہوں ، یہ سب یادداشت کی بنا پر ہے۔ اکثر تاریخیں تو مجھے یاد ہوتی ہیں ، تاہم اگر کہیں ضرورت پڑے تو کسی سے تصدیق کر لیتا ہوں ۔ میری کتابیں دو طرح کی ہیں ، ایک علمی اور تحقیقی، دوسری شخصی خاکوں پر مشتمل۔ علمی کتابوں کا انداز اور ہے، شخصی خاکوں پر مبنی کتب کا انداز اور زبان دوسری ہے۔۔۔ جو کتب خاکوں پر مبنی ہیں وہ تو محض یادداشت کی بنا پر لکھی گئی ہیں ، ان کی تیاری میں مجھے کوئی خاص محنت نہیں کرنی پڑی۔ اکثر واقعات میرے ذہن میں محفوظ تھے، اللہ کے فضل سے جب ان کو صفحۂ قرطاس پر اتارتا ہوں تو وہ یاد آتے چلے جاتے ہیں ۔ علمی اور تحقیقی کتابوں کا انداز ذرا مختلف ہے، ان میں مطالعہ کرنا پڑتا ہے، خاص محنت کرنا پڑتی ہے۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ دو چار سو صفحات پڑھ ڈالتے ہیں ، لیکن دو چار سطریں بھی نہیں بن پڑتیں ۔ بعض اوقات ایسے بھی ہوتا ہے کہ آپ لکھنے بیٹھتے ہیں تو دماغ چلتا ہی نہیں ، دماغ کو بڑی رشوت دینا پڑتی ہے، اور کبھی ایسے ہوتا ہے کہ قلم چل پڑتا ہے تو پھر رکنے ہی کو نہیں آتا۔ مجھ پر اللہ کا یہ احسان ہوا ہے کہ مجھے بڑے اچھے لوگوں کی صحبت نصیب ہوئی، بڑے بڑے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ مولانا داود غزنوی رحمہ اللہ سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ اور اس دور کے علما کے سامنے مؤدب ہو کر میں بیٹھا کرتا تھا۔ میری عادت ہے کہ سنتا زیادہ ہوں ، بولتا کم ہوں ۔ اس کے بڑے فائدے ہیں ۔ اس عادت کی بدولت مجھے بہت کچھ حاصل ہوا۔ مولانا داود غزنوی رحمہ اللہ سے ہر مکتبِ فکر کے لوگ ملا کرتا تھے، اس سے میرا حلقہ احباب بھی وسیع ہوا اور بعض نامور شخصیات سے میرے ذاتی روابط بھی قائم ہو گئے، جس سے میری بڑی تربیت ہوئی۔(ماخوذ انٹرویو: ماہنامہ ’’شہادت‘‘ اسلام آباد)
Flag Counter