Maktaba Wahhabi

510 - 924
گوجرانوالہ جاتے تو میں کوئی نہ کوئی مضمون لکھ کر انھیں دے دیتا، وہ بعض اوقات اس کی کاٹ چھانٹ کرتے یا کبھی ویسے ہی چھاپ دیتے اور بڑی حوصلہ افزائی فرماتے۔ میں نے سب سے پہلے شخصیات پر لکھنا شروع کیا، میں نے حافظ عبداللہ روپڑی، حافظ محمد گوندلوی، مولانا محمد علی لکھوی، مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی اور مولانا داود غزنوی رحمہم اللہ پر مضامین لکھے۔ یہ ’’الاعتصام‘‘ کی پہلی جلد میں شائع ہوئے۔ میرے رجحان اور صلاحیت کو دیکھتے ہوئے مولانا حنیف ندوی رحمہ اللہ نے جمعیت کے ذمے داران سے درخواست کی کہ مجھے ان کا معاون بنا کر گوجرانوالہ ’’الاعتصام‘‘ کے دفتر بھیج دیا جائے، چنانچہ ۲۰؍ فروری ۱۹۵۰ء کو میں ’’الاعتصام‘‘ کے دفتر گوجرانوالہ چلا گیا، پھر یہ ہوتا کہ میں تین دن گوجرانوالہ اور تین دن لاہور میں جمعیت کے دفتر میں آفس سیکرٹری کے طور پر کام کرتا، وہ زندگی کے مصروف ترین ایام تھے۔ میں دن رات کام کرتا تھا۔ میرے ذہن میں تھا کہ میں نے یہ کام سیکھنا ہے، میرا دل چاہتا تھا کہ ایڈیٹر صاحب مجھے کام دیں ، کہیں کہ یہ بھی تم لکھو اور یہ بھی تم لکھو۔ ابتدا میں ندوی صاحب رحمہ اللہ کو اصلاح کرنا پڑتی تھی، یوں میرا یہ شوق میرا پیشہ بن گیا۔ ۱۵؍ مئی ۱۹۵۱ء کو مولانا حنیف ندوی رحمہ اللہ ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ میں چلے گئے اور ’’الاعتصام‘‘ میرے حوالے ہو گیا۔ نام ان کا چھپتا رہا، لکھتا میں رہا۔ اس دوران میں الحمد للہ میں نے کسی کو یہ کہنے کا موقع نہیں دیا کہ یہ کاٹ دینا چاہیے تھا، یا یہ کیوں کاٹا وغیرہ۔ بالآخر بڑوں نے مجھ پر اعتماد کیا اور مجھے ’’الاعتصام‘‘ کا باقاعدہ ایڈیٹر بنا دیا۔ میں نے بڑے محتاط رہ کر اس ذمے داری کو نبھایا، کیوں کہ رسالے کی ایڈیٹری بالخصوص مذہبی رسالے کی اچھا خاصا مشکل کام ہے۔ مولانا حنیف ندوی، مولانا عطاء اللہ اور مولانا داود غزنوی رحمہم اللہ سے راہنمائی لیتا رہتا تھا۔ جماعتی سطح پر انتشار و افتراق کی وجوہات: سوال: جماعت میں جو انتشار و افتراق ہے، آپ کی نظر میں اس کا حل کیا ہے؟ بھٹی صاحب رحمہ اللہ: اتحاد کے لیے قربانی دینا پڑتی ہے۔ اپنے عہدے چھوڑنے کی ہمت پیدا کرنا پڑتی ہے، اپنی اَنا ختم کرنا پڑتی ہے، اس انداز میں سوچنا پڑتا ہے کہ شاید میں ہی غلطی پر ہوں ۔ یہ کوئی سوچنے کے لیے تیار نہیں ، ہر ایک کہتا ہے کہ بس میں صحیح ہوں ۔ اتحاد اس صورت میں ہوتا ہے، جبکہ فریقین میں لچک ہو، کچھ باتیں ایک فریق کی مانی جائیں ، کچھ دوسرے فریق کی۔ یہ مسئلہ کفر و اسلام کا تو ہے نہیں کہ اس طرح کے سمجھوتے سے ایمان ضائع ہوتا ہے۔ فریقین مواحد ہیں ، بس کچھ جماعتی اختلافات ہیں ۔ آج کل جماعتیں کوئی لچک دکھانے کے لیے تیار نہیں ، کوئی کسی کی بات ماننے پر آمادہ نہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اختلاف ہے کس بات کا؟ کوئی پتا نہیں ۔ خبریں سننے کو ملتی ہیں ، جی فلاں صاحب کو جماعت سے نکال دیا، بھئی جماعت سے نکال کر آپ نے کیا کیا؟ اس کی رفع الیدین بند کر دی، پاؤں سے پاؤں ملانا ترک کر دیا،آمین بند کر دی ہے، سینے پر ہاتھ باندھنے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ پانچ مسئلے تو ہیں امتیازی، چھٹا کون سا ہے؟ اگر کسی کو آپ جماعت سے خارج کرتے ہیں تو وہ اپنی جماعت بنا لیتا ہے، اپنی
Flag Counter