Maktaba Wahhabi

572 - 924
دیں ۔ ضروری نہیں کہ ہر شخص آپ کی ہر بات کو مبنی بر صحت قرار دے، کچھ لو گ موافقت کریں گے اور کچھ مخالفت بھی کریں گے۔ ہمیں اپنے طور پر مصروفِ عمل و حرکت رہنا چاہیے۔ کسی کی تنقید یا تعریف کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں اپنے دین کی خدمت پر لگائے رکھے اور دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہم کنار فرمائے۔ آپ بڑے خاندان کے رکن ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آپ کی تحریر ماشاء اﷲ بہت اچھی ہے اور جذبات بڑے صحیح ہیں ۔ اﷲ مستقبل بہتر کرے گا اور ان شاء اللہ آپ اپنے مسلکِ حقہ کے عظیم مبلغ اور مصنف ثابت ہوں گے۔ امید کہ مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے۔ اخلاص کیش محمد اسحاق بھٹی ۸؍ ستمبر ۱۹۹۸ء 9۔حکیم مدثر محمد خاں (سمندری)کے نام: حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ مکتوب الیہ پر نہایت ہی شفقت فرماتے تھے۔ انھوں نے حضرت صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ کے تذکرہ پر جو تاریخی کتاب لکھی ہے، اس کا آخری حصہ مولانا حکیم مدثر محمد خان کی فراہم کردہ معلومات پر مشتمل ہے۔ زیرِ نظر خط سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مرحوم کو ان سے کس قدر ذاتی انس تھا۔ دیکھئے ان کا یہ خط: بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم مکرمی و محترمی حکیم صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ! مکتوب گرامی ملا۔ علی ارشد صاحب کی وفات کا اب تک یقین نہیں آ رہا۔ لیکن جو ہونا تھا، ہو چکا۔ انتہائی افسوس ہوا۔ یہ ۱۷؍ فروری کا واقعہ ہے۔ اس سے تھوڑی دیر قبل ۱۶؍ فروری کو شام کے وقت تاج محمود کی وفات کی اطلاع آئی۔ اس اچانک حادثے سے طبیعت اُکھڑ گئی۔ رات کو بارہ بجے میرا چھوٹا بھائی سعید احمد اور اس کی بیوی یہاں سے جنازے کے لیے روانہ ہوئے۔ چار بجے کے قریب ان کے گاؤں چک نمبر ۳۶ پہنچے۔ صبح کے وقت میرا دوسرا بھائی طارق محمود یہاں سے روانہ ہوا، وہ بھی جنازے میں پہنچ گیا۔ دوسرے بھائی اور رشتے دار بھی جنازے میں شامل ہوئے۔ افسوس ہے، میں اتنا سفر نہیں کر سکا۔ سردی سے گھبرا گیا اور جنازے میں حاضر نہ ہو سکا۔ تاج محمود میری حقیقی پھوپھی کا نواسہ تھا اور میرا بھانجا تھا۔ نہایت نیک اور ملنسار لڑکا تھا۔ میری بیوی کے جنازے میں بھی شامل تھا اور اس کے بعد دونوں میاں بیوی لاہور بھی افسوس کے لیے آئے۔ اس کا والد کوئی پینتیس،
Flag Counter