Maktaba Wahhabi

596 - 924
2۔مولانا عبدالخالق قدوسی شہید رحمہ اللہ(شہادت: ۲۳؍ مارچ ۱۹۸۷ء): مولانا عبدالخالق قدوسی شہید رحمہ اللہ جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے ممتاز عالمِ دین تھے۔ آپ شیخوپورہ کے ایک گاؤں کوٹ رنجیت سنگھ سے تعلق رکھتے تھے۔ ۱۹۴۰ء میں پیدا ہوئے۔ والد کا اسمِ گرامی غلام محمد تھا، جو نہایت پرہیزگار اور متدین بزرگ تھے۔ ابتدائی دینی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کرنے کے بعد تاندلیانوالا کے مشہور مدرسہ جھوک دادو میں حضرت میاں محمد باقر رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہاں کچھ عرصہ پڑھتے رہے، پھر جامعہ سلفیہ فیصل آباد چلے گئے۔ مکمل فراغت کے بعد لاہور منتقل ہو گئے۔ یہاں انھوں نے دینی کتابوں کی تجارت شروع کر دی۔ اس سلسلے میں اُردو بازار لاہور میں مکتبہ قدوسیہ کی بنیاد رکھی۔ آپ کی دکان علم اور اہلِ علم کی آمد کا مرکز تھی۔ کئی اصحابِ بصیرت تشریف لاتے اور گھنٹوں علمی موضوعات پر بحث و تمحیص جاری رہتی۔ جناب انور طاہر لکھتے ہیں : ’’مکتبہ قدوسیہ میں اہلِ حدیث اہلِ علم اور طالبِ علم ہی نہیں دیگر مکاتبِ فکر سے وابستہ اصحابِ علم کی آمد و رفت بھی رہتی تھی۔ اس مرکزِ علم میں جہاں حافظ صلاح الدین یوسف، مشہور مناظر مولانا شمشاد سلفی حفظہمااللہ ، حافظ ابراہیم کمیرپوری رحمہ اللہ اور دیگر اہلِ حدیث علما آتے تھے، وہاں مولانا محمد غلام سرور قادری رضوی، مولانا عبدالحکیم اشرف قادری اور مولانا سعید الرحمان علوی بھی آتے جاتے رہتے تھے۔ اکثر یوں ہوتا کہ کوئی صاحب وہیں سے کتاب اُٹھا کر مناظرہ شروع کرنا چاہتے تو فرماتے: اگر مسئلہ سمجھنا ہے اور نیت افہام و تفہیم کی ہے تو تشریف رکھیں ، ورنہ بحث برائے بحث میں وقت ضائع نہ کریں ۔ مرحوم کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ مخاطب جو کچھ کہنا چاہتا تھا، اسے پیشِ نظر رکھتے۔ وہ بال کی کھال اُتارنے اور بحث برائے بحث میں اپنا اور دوسرے کا وقت ضائع کرنے کے قائل نہ تھے۔ پی ایچ ڈی کے طالبِ علم تک اپنے تحقیقی مقالہ جات کی تیاری میں راہنمائی کے لیے مولانا عبدالخالق قدوسی رحمہ اللہ کے پاس آتے اور اہلِ حدیث علما اور مناظر مختلف حوالہ جات کی تلاش میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔‘‘(ماہنامہ مجلہ’’الاخوۃ‘‘ لاہور۔ مارچ ۲۰۱۶ء) مولانا قدوسی کے شہیدِ ملتِ اسلامیہ حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ سے قریبی روابط تھے، بلکہ وہ حضرت علامہ صاحب رحمہ اللہ کے مداح تھے۔ مکتبہ قدوسیہ کی ابتدا میں انھوں نے علامہ صاحب کے ساتھ مل کر چند اہم کتب شائع کیں ، جن میں فتاوی نذیریہ اور فتاوی ثنائیہ شامل ہیں ۔ بعد میں انھوں نے اپنی ذاتی حیثیت میں صحیح ابن خزیمہ، امام ابن حزم کی جوامع السیرۃ، مولانا اسماعیل صاحب کی مترجم مشکوٰۃ، نواب صدیق حسن خان قنوجی رحمہ اللہ کی بعض اہم کتب اور مسلک اہلِ حدیث کے حوالے سے بعض مفید کتابیں شائع کیں ۔ مختلف رسائل و جرائد ہفت روزہ ’’الاسلام‘‘ اور ’’الاعتصام‘‘ وغیرہ میں ان کے متعدد مضامین شائع ہوئے، جو علم و تحقیق کا شاہکار ہیں ۔ آپ کا اندازِ تحریر نہایت سلیس اور عام فہم تھا۔ ان میں ایک قیمتی مضمون میری نظر سے گزرا
Flag Counter