Maktaba Wahhabi

614 - 924
انٹرنیشنل اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ آپ کے صاحبزادے جناب سلیم آغا قزلباش بھی عہد ساز ادیب اور دانشور ہیں اور اپنے والدِ گرامی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ادب پروری میں پیش پیش ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم کے متعلق جناب منشا یاد لکھتے ہیں : ’’ڈاکٹر وزیر آغا ایک بلند پایہ اور جدید نقاد ہی نہیں ، ایک ادبی رسالے کے مدیر کی حیثیت سے بھی اردو ادب میں جدیدیت کو فروغ دینے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اپنی تخلیقات اور اداریوں میں جن اہم مباحث پر اظہار خیال کرتے رہے ہیں ، وہ ’’وزیر آغا کے اداریے‘‘کے نام سے ڈاکٹر اقبال فاروقی کی مرتبہ ایک الگ کتاب کی صورت میں شائع ہو چکے ہیں ۔ان میں ہر اداریہ کوزے میں دریا بند کرنے کے مترادف اور بہت خیال انگیز ہے۔ اگرچہ ڈاکٹر وزیر آغا کا شمار برصغیر کے چند گنے چنے نقادوں میں ہوتا ہے، لیکن ایسا نقاد پوری اردو دنیا میں شاید ہی کوئی دوسرا ہو، جو تخلیقی طور پر بھی اتنا ہی زرخیز اور شاداب ذہن رکھتا ہو۔ انھوں نے بلاشبہہ اُردو میں خود بہترین انشائیے لکھ کر انشائیہ نگاری کی روایت کو مالا مال اور مستحکم کیا اور جدید نظم میں گراں قدر اضافے کیے۔‘‘(ماہنامہ ’’اخبار اردو‘‘ اسلام آباد، ص: ۲۶؍ اکتوبر ۲۰۱۰ء) ڈاکٹر صاحب مرحوم ایک کشادہ دل، شریف النفس اور خوش مزاج آدمی تھے اور دوستوں کے دوست۔ ان کی صحبت میں بیٹھنے والے ادبی اور فکری طور پر آسودگی اور ترو تازگی محسوس کرتے۔ مرحوم ایک خوشحال زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ گھر میں ناز و نعم کی پرورش اور دولت کی ریل پیل کے باوجود انھوں نے تحریر و تحقیق ہی کو ہدف بنایا اور خونِ جگر صَرف کر دیا۔ ان کی تصانیف اور تحقیقی سرگرمیاں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آپ پیدایشی طور پرایک قلم کار تھے۔ موصوف سات ستمبر ۲۰۱۰ء کو اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ 14۔مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ(وفات: ۲۲؍ ستمبر ۱۹۷۹ء): مولانا سید ابو الاعلی مودودی رحمہ اللہ اس عہد کے بہت بڑے عالم تھے۔ ان کے دینی و سیاسی نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن بطور علمی شخصیت، ان کا مقام بہت اونچا تھا۔ جہاں وہ نامور عالمِ دین تھے، وہاں وہ بہت بڑے ادیب بھی تھے۔ آپ جماعتِ اسلامی پاکستان کے بانی اور داعی تھے۔ اسیری کے زمانوں کو چھوڑکر وہ ہمیشہ جماعت کے منصب پر فائز رہے۔ مولانا مرحوم کا ایک اہم کارنامہ، جو ہمیشہ ان کے لیے صدقہ جاریہ کے طور پر یادگار رہے گا، وہ ہے تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ کی تصنیف۔ قرآنِ مجید کے تیس(۳۰)پاروں کی تفسیر لکھنے پر انھوں نے زندگی کے تیس سال ہی صرف کیے۔ ان کی تفسیر کے متعلق علمائے کرام کی رائے یہ ہے کہ ’’اسلام کے خلاف مغربی اور مشرقی بلاک کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات کے ازالے کے لیے ’’تفہیم القرآن‘‘ نے زبر دست کام کیا ہے۔‘‘ اس تفسیر کی ایک اہم خوبی اس کا منفرد اندازِ نگارش ہے۔ اردو زبان و ادب سے معمولی واقفیت رکھنے والا شخص
Flag Counter