Maktaba Wahhabi

633 - 924
آہ! ابو جی ۔۔۔ ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ گئے إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون تحریر: جناب حافظ محمدحسان سعید بھٹی۔ لاہور آہ!۔۔۔ میں آج اس شخصیت کے بارے میں لکھنا چاہ رہا ہوں ، جس کے بارے کبھی گمان بھی نہ گزرا تھا کہ ان کے آخری دنوں کی روداد لکھنا پڑے گی، جن کو جماعت اہلِ حدیث ہی نہیں ، بلکہ اہلِ علم کی کثیر تعداد چا ہے دیوبندی ہوں ، بریلوی ہوں ، جماعت اسلامی کے افراد ہوں ، چا ہے اہلِ تشیع ہوں یا دیگر اہلِ خرد ہوں ، سب لائقِ تکریم گردانتے تھے۔ ہمارے محترم بزرگ و عظیم صاحبِ قلم، دانش ور، دنیائے صحافت کے بے تاج بادشاہ جناب علامہ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ، جنھیں ہمارے خاندان کے سب افراد وخواتین ’’ابوجی‘‘ کے نام سے یاد کرتے اور پکارتے تھے۔ انھوں نے ہمارے درمیان قرآن و سنت کی دعوت و فہم کے باعث برکت و نور کا ہالہ بنا رکھا تھا اور جن کی عالمانہ اور فاضلانہ شخصیت کے زیرِ اثر اکثر اہلِ علم کی زیارت و ملاقات ہو جاتی تھی، پھر ہمارے گھرانے کے افراد ان اہلِ علم کی خدمت کو سعادت سمجھتے تھے، آج وہ شخصیت یعنی ہمارے ’’ابوجی‘‘ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کے متعلق قلم ساتھ نہیں دے رہا کہ انھیں مرحوم لکھوں ۔۔۔! میرے والد گرامی جناب سعید احمد بھٹی کے بڑے بھائی، جنھیں والد صاحب بھی ’’ابو جی‘‘ ہی کہا کرتے تھے، جو ہر وقت ان کی خدمت میں ہی رہتے تھے، ابو جی کی رونق اور ان کی علمی خوشبو بھلائے بھی ہم نہ بھلا سکیں گے۔ آج کچھ سطور لکھنے کی ہمت کر رہا ہوں کہ انھوں نے اپنی زندگی کی اکانوے(۹۱)بہاریں اس دنیائے رنگ وبو میں گزاریں ، یوں تو انھوں نے اپنی زندگی کی آپ بیتی ’’گزرگئی گزران‘‘ تحریر فرما دی تھی، جس میں ان کی حیات و خدمات کا تقریباً احاطہ ہو ہی جاتا ہے، تاہم ان کی زندگی کے آخری چند روز جنھیں میں نے حیطۂ تحریر میں لانے کی کوشش کی ہے، ملاحظہ فرمائیں : ۱۶؍ دسمبر ۲۰۱۵ء بروز پیر دوپہر تین بجے جب راقم یونیورسٹی سے گھر پہنچا تو گھر داخل ہوتے ہی والدہ سے ابو جی کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں گئے ہیں ؟ والدہ نے کہا کہ آج ’’الاعتصام‘‘ کے دفتر میں میٹنگ تھی۔ بارہ بجے دفتر سے ایک صاحب(سجاد صاحب)موٹر سائیکل پر آئے تھے، وہ ان کے ساتھ گئے ہیں ۔
Flag Counter