Maktaba Wahhabi

646 - 924
ابو جی! ۔۔۔ گزر گئی گزران تحریر: قدیسہ سعید(بھتیجی مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ) لیکچرار اردو، گورنمنٹ کا لج فار ویمن۔ جڑانوالہ، فیصل آباد میری سماعت سے ٹکڑانے والی پہلی آواز جو اذان کی صورت میرے دماغ تک پہنچی، میرا نام رکھنے والی ہستی، میری تعلیم، پیشے اور شادی جیسے اہم معاملات میں پوری دل چسپی لینے والی ذات، میرے نکاح خواں اور پھر میرے بچے کے کان میں اذان دینے اور نام رکھنے والی شخصیت میرے ابو جی۔۔۔ محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ۔ یوں تو ہمارے اعزا و اقربا میں بہت بچوں کے نام ابو جی نے رکھے، لیکن شاید یہ اعزاز صرف میرے ہی پاس ہے کہ میرا، میرے خاوند کا اور میرے بچوں کے نام ان ہی کے تجویز کردہ ہیں ۔ قدیسہ، جنید، ثوبان اور ریان۔ میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی، وہاں ہر وقت اخلاقیات کا درس ملا، یہاں تک کہ پڑھنے پڑھانے کی اہمیت اُجاگر کی گئی۔ ہمیں بچپن ہی میں متجسس، خوف ناک، رومانوی، جن، پری، بادشاہ، ملکہ یا جانوروں کی کہا نیاں سنانے کے بجائے قصص الانبیاء اور دیگر اہم شخصیات کے واقعات سے متعارف کروایا گیا اور سبق آموز کہانیاں سنائی گئیں ۔ انھوں نے مجھے اس وقت ناظرہ قرآن پا ک پڑھا دیا تھا، جب میں ابھی سکول داخل بھی نہیں ہوئی تھی، یعنی چار سال کی عمر میں ۔ مجھے بچپن کی ایک نظم آج بھی یاد ہے: سات پتے توڑیں گے ایک پتہ کچا، ہرن کا بچہ ہرن گئی جیل میں جیل میں کھائے بسکٹ بسکٹ بہت خراب ہم نے پی شراب شراب بہت اچھی ہم نے کھائی مچھی مچھی سے نکلا کانٹا کانٹا میں سے خون کردو ٹیلی فون ٹیلی فون کی گھنٹی نہیں یہاں تحریف کا سہارا لیتے ہوئے ابو جی نے ’’شراب‘‘ کی جگہ ’’کتا ب‘‘ کروایا اور یہ نظم یوں ہو گئی: سات پتے توڑیں گے ایک پتہ کچا، ہرن کا بچہ ہرن گئی جیل میں جیل میں کھائے بسکٹ بسکٹ بہت خراب ہم نے پڑھی کتاب کتاب بہت اچھی ہم نے کھائی مچھی مچھی سے نکلا کانٹا کانٹے میں سے خون کر دو ٹیلی فون ٹیلی فون کی گھنٹی نہیں یہ اس وقت کی بات ہے، جب میں ’’شراب‘‘ کے مفہوم سے بھی نا آشنا تھی۔ لیکن انھوں نے ہمیں ایسے الفاظ
Flag Counter