Maktaba Wahhabi

699 - 924
مولانا حافظ مسعود عالم نے پڑھائی، جس میں علما اور طلبہ کے علاوہ لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور انھیں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپردِ خاک کر دیا گیا۔ اللہم اغفرلہ و ارحمہ۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ اپنی ذات میں انجمن تھے۔ انھوں نے بڑی بھرپور زندگی گزاری، بڑا زرخیز ذہن پایا۔ حافظہ بہت خوب تھا۔ کسی بھی واقعہ کی جزئیات تک یاد رکھتے تھے۔ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کی تاسیس سے لے کر آخر دم تک اسی تنظیم سے وابستہ رہے۔ کئی جماعتی دینی مجلّوں کے مدیر رہے۔ ادارہ ’’ثقافت اسلامیہ‘‘ کے سینئر ریسرچ اسکالر رہے اور بے مثال خدمات سر انجام دیں ۔ آپ تقریباً چالیس کتابوں کے مصنف تھے۔ آپ بہترین انشا پرداز اور خاکہ نگار تھے۔ علمائے اہلِ حدیث کی تفسیری، حدیثی، فقہی، سیاسی اور تحریکی خدمات کے علاوہ برصغیر کے حالات پر بے مثال اور لاجواب کتابیں سپردِ قلم کیں اور پوری تاریخ کو دجل و فریب سے پاک کر دیا۔ مولانا رحمہ اللہ نے نہایت سادہ طبیعت پائی۔ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ پڑھنے اور طلبہ کو فیض پہنچانے میں صرف کیا اور بڑی خاموشی سے ملتِ اسلامیہ کی خدمت کی۔ آپ رحمہ اللہ کی تصانیف نے آنے والی نسلوں کے سامنے ماضی کی بہترین تصویر پیش کر دی ہے۔ بلاشبہہ یہ آپ کا احسان ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مولانا رحمہ اللہ کی وفات سے ہم ایک ممتاز عالمِ دین، مورخ، ادیب اور قلم کار سے محروم ہوئے ہیں ، جس کی تلافی ممکن نہیں ۔ ادارہ ’’جامعہ سلفیہ‘‘ کے اساتذہ اور طلبہ نہ صرف نمازِ جنازہ میں شریک ہوئے، بلکہ ان کے اہلِ خانہ کے ساتھ دلی تعزیت اور ہمدردی کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔ دعاگو ہیں اللہ تعالیٰ انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ نصیب فرمائے اور تمام لواحقین کو صبرِ جمیل سے نوازے۔ آمین (ماہنامہ ’’ترجمان الحدیث‘‘ فیصل آباد۔ جنوری تا مارچ ۲۰۱۶ء۔ جلد: ۴۹۔ شمارہ: ۱، ۲، ۳) 10۔ماہنامہ ’’نقیب ختم نبوت‘‘ ملتان: آہ! مولانا محمداسحاق بھٹی رحمہ اللہ ! اہلِ حدیث مکتبۂ فکر کے ممتاز عالمِ دین، صاحبِ طرز ادیب، انشا پرداز اور محقق مولانا محمداسحاق بھٹی گذشتہ ماہ انتقال فرما گئے۔ مرحوم ۱۵؍ مارچ ۱۹۲۵ء میں پیدا ہوئے۔ علمِ دین کی تحصیل کے بعد عمر بھر خدمتِ دین میں مصروف رہے۔ انھوں نے حضرت مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ اور دیگر اکابر کی معیت میں زندگی کا قیمتی وقت گزارا، انتہائی منکسر المزاج اور شگفتہ طبیعت کے مالک تھے۔ انھوں نے درجنوں کتابیں تالیف و تصنیف کیں ، مسلکی تعصب سے بالا تھے۔ انھوں نے مولانا ابو الکلام آزاد اور حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہما اللہ کو قریب سے دیکھا اور سنا۔ دونوں شخصیات پر ان کے طویل مضامین شاہکار تحریریں ہیں ۔’’نقوش عظمتِ رفتہ‘‘ اور ’’بزمِ ارجمنداں ‘‘، شخصیات پر ان کی معرکہ آرا کتابیں ہیں ۔ ’’گزر گئی گزران‘‘ ان کی آپ بیتی ہے۔ ان کی تحریریں ایسی دلچسپ، سادہ اور بے ساختہ
Flag Counter