Maktaba Wahhabi

728 - 924
نسلیں یہ تسلیم نہیں کریں گی کہ یہ فردِ واحد کا کام ہے۔ بلاشبہہ مولانا مرحوم نے اکیلے جتنا کام کیا، وہ ایک جماعت بھی نہیں کر سکتی۔ آپ کی شخصیت اس حیثیت سے مثالی تھی کہ آپ نے برصغیر کے چاروں خطوں پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش اور نیپال میں جاری تحریکِ اہلِ حدیث کی تاریخ کو مرتب کرنے میں جس جانفشانی، محنت اور لگن کا مظاہرہ کیا ہے، اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی وفات پر ’’موت العالِم موت العالَم‘‘ کا مقولہ حرف بہ حرف صادق آتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت و مصلحت کے آگے سب کو سرِ تسلیم خم کرنا ہے۔ ادارہ جامعہ عالیہ عربیہ کے ذمے داران اور اساتذۂ جامعہ آپ کی خدمات کے اعتراف کے ساتھ دعا گو ہیں ، اللہ تعالیٰ موصوف کی دینی و علمی خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور اسے آپ کے لیے ذخیرۂ آخرت بنائے اور پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 16۔مولانا سید انورشاہ راشدی(مدرسہ دار الرشاد پیر آف جھنڈا، نیو سعید آباد ضلع مٹیاری): نابغۂ روزگار ہستی کی رحلت مورخِ اہلِ حدیث علامہ محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی وفات کے متعلق سن کر بے حد صدمہ ہوا۔ إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون۔ مولانا کی رحلت کا صدمہ نہ صرف میرے لیے بلکہ پورے عالمِ اسلام کے لیے ہے۔ مشہور مقولہ ہے: ’’موت العالِم موت العالَم‘‘ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ جیسی نابغۂ روزگار شخصیت اسی مقولے کی صحیح مصداق ہے۔ تذکار و تاریخ کے اعتبار سے مسلکِ اہلِ حدیث کی جس قدر انھوں نے خدمت کی، اس کی مثال برصغیر پاک و ہند میں نہیں ملتی۔ حضرت مولانا صاحب مرحوم کی خدماتِ جلیلہ کا دائرہ بہت ہی وسیع ہے۔ میں بہ ذاتِ خود ان کی مساعیِ جمیلہ کا بے حد معترف ہوں اور اُن کی تصانیف کا قاری بھی۔ محض اللہ کی رضا کے لیے ان کی ذاتِ گرامی سے محبت تھی۔ آپ رحمہ اللہ جیسے بے لوث دین کی خدمت کرنے والے لوگ آج کے دور میں خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔ اب صرف اُن کی حسرت ہی رہے گی۔ غم تازہ رہے گا۔ لیکن ﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ﴾ کے قرآنی فرمودہ کے آگے کس کی مجال ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو منور فرمائے اور انھیں جنت الفردوس کا مکین بنائے رکھے۔ آمین 17۔چوہدری غلام حسین تہاڑیہ(تلونڈی ضلع قصور): عجز و انکساری کا حقیقی پیکر علامہ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ عجز و انکساری کا حقیقی پیکر تھے۔ ان کی بود وباش عام سی اور بڑی سادہ تھی۔ زندگی کے آخری ایام تک ان کی رہایش لاہور کے ایک محلے ساندہ کی ایک تنگ سی گلی میں ایک چھوٹے سے مکان میں رہی۔ مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ عالم تو تھے ہی، قدرت نے انھیں تحریر و تذکرہ، سیرت و سوانح کا علمی منہاج بھی عطا کیا تھا۔ آپ رحمہ اللہ مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ سے بہت متاثر تھے اور اُن کے متعلق سب سے طویل مضمون اپنی کتاب
Flag Counter