Maktaba Wahhabi

731 - 924
گاؤں آدمی بھیجا تو وہ کماد کے کھیت میں ’’گوڈی‘‘ کر رہے تھے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی گفتگو کا انداز یہ ہوتا تھا کہ ’’اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے؟‘‘ بھٹی صاحب کی شخصیت کا خاصا یہ تھا کہ قدرت نے انھیں ہر قسم کا علم فیاضی سے عطا کیا۔ وہ اظہار کا ایک خاص ملکہ رکھتے تھے۔ وہ گفتگو کرتے ہوئے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھتے۔ مولانا اردو خوبصورت لکھتے تھے، لیکن اردو بولتے ہوئے جگہ جگہ پنجابی کا تڑکا لگاتے جاتے تھے۔ لہجہ بھی خالص پنجابی ہوتا، مگر اس تڑکے اور اس لہجے کا اپنا لطف و سرور تھا۔ ان کی مجلس میں احساس ہوتا کہ ’’وہ کہیں اور سنا کرے کوئی‘‘۔ ہندوستان اور پاکستان کے چوٹی کے راہنماؤں کے بارے میں انھوں نے جو تاثرات قائم کیے ہیں ، وہ بھی خالصتاً ان کے اپنے ہیں ۔ جس کا اظہار انھوں نے اپنی کتابوں اور تقریروں میں یکساں کیا۔ شخصی خاکوں کے بارے میں ان کا انداز ظریفانہ نہیں ، بلکہ عالمانہ ہے۔ موصوف انکساری اور کسر نفسی کا مجسمہ تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ہم سب کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 21۔مولانا عبدالحنان جانباز(مہتمم جامعہ رحمانیہ، ناصر روڈ سیالکوٹ): عظمتِ اسلاف کے امین مورخِ اہلِ حدیث مولانا محمداسحاق بھٹی رحمہ اللہ اس صدی کے عظیم رجالِ حدیث تھے۔ انھوں نے مولانا محمد داود غزنوی اور شیخ الحدیث مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہما اللہ کی شاگردی و رفاقت کا حق ادا کر دیا۔ مرحوم تاحیات علمائے حدیث کی علمی عظمتوں کو آشکار کرتے رہے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ معتمد، ثقہ اور متدین تاریخ نگار تصور کیے جاتے تھے۔ علمائے عصر اور رجالِ تاریخ میں بلند مرتبے کے حامل تھے۔ تصنیف و تالیف میں ان کا مقام بہت اونچا تھا۔ مشاہیر زمانہ شخصیات بھی ان کے علم و فضل کا دل سے احترام کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی قوتِ ارادی کو بروئے کار لا کر تاریخ خاص طور سے رجالِ حدیث کے حالات و واقعات اور خدمات کو اپنے مخصوص انداز میں مرتب کر کے کئی ضخیم کتابیں پیش کیں ۔ والدِ گرامی حضرت مولانا محمد علی جانباز رحمہ اللہ کے احوال، افکار و آثار پر ایک اہم کتاب اگست ۲۰۱۲ء میں ہمارے ادارے جامعہ رحمانیہ، ناصر روڈ سیالکوٹ سے شائع ہوئی تو بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے نہایت ہی خوشی کا اظہار فرمایا۔ بڑے سائز کے ۹۱۲ صفحات کی اس کتاب کو انھوں نے مرقع حکمت و دانش سے تعبیر کیا۔ اس میں ان کا بھی بہت خوبصورت لب و لہجے میں لکھا گیا مضمون ہے۔ انھوں نے اپنی معروف تصنیف ’’دبستانِ حدیث‘‘ میں بھی حضرت والد صاحب رحمہ اللہ پر مضمون لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس محبت کو قبول فرما کر خصوصی جزا عطا فرمائے۔ آمین۔ موصوف کی علمی فکر سے لاکھوں لوگ متاثر ہوئے۔ وہ جب تاریخِ اہلِ حدیث کو موضوع تحریر بناتے تو معلوم ہوتا کہ بحرِ فکر سے قیمتی موتی نکال کر ہمارے سامنے بکھیر رہے ہیں ۔ ان کی تصنیفات بزمِ ارجمنداں ، کاروانِ سلف، تذکرہ مولانا غلام رسول قلعوی رحمہ اللہ ، صوفی عبداللہ رحمہ اللہ ، نقوش عظمتِ رفتہ، تذکرہ قاضی محمدسلیمان منصور پوری رحمہ اللہ ، گلستانِ حدیث،
Flag Counter