Maktaba Wahhabi

732 - 924
دبستانِ حدیث وغیرہ سے جہاں تاریخِ اہلِ حدیث کی جھلکیاں ملتی ہیں ، وہاں اردو ادب کا بھی بھرپور اظہار ملتا ہے۔ ان کی تحریروں میں حسین الفاظ و تراکیب کا ایک ہجوم امڈے ہوئے ہے، جو عقیدت کی خوشبو سے لبریز ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کی دینی، دعوتی اور تصنیفی خدمات کو شرفِ قبولیت عطافرماتے ہوئے جنت الفردوس نصیب کرے۔ آمین 22۔مولانا عبدالمنان شورش(مدرس :مرکز المودۃ۔ ڈیرہ غازی خان): اُفقِ تاریخ پر گہرے نقوش مرتسم کرنے والی شخصیت محسنِ اہلِ حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ہمارے عظیم اسلاف کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ انھوں نے اپنی کتابوں کے ذریعے جہاں کتاب و سنت کی دعوت کو عام کیا، وہاں تاریخ کے آئینے میں اکابر علما اور گم نام بزرگانِ دین کا تعارف کرا کے پورے مسلک کو بھی تابندگی عطا فرما دی(ان شاء اللہ)۔ ان کے سحر نگار قلم سے ان کے بدو شعور سے لکھی جانے والی درجنوں کتب یادِ ایام کا حسین مرقع ہیں ۔ انھوں نے اپنے علم و عمل سے اُفقِ تاریخ پر گہرے نقوش مرتسم کیے۔ مرحوم بڑے سادہ، بے تکلف اور وضع قطع کے لحاظ سے بہت شگفتہ مزاج نظر آتے تھے، لیکن ان کا علمی اور روحانی دبدبہ اتنا تھا کہ نامور علما و مشائخ کو ان کے سامنے مؤدب بیٹھے دیکھا گیا۔ آپ کا حافظہ بہت قوی تھا۔ قرآن کا بیشتر حصہ اور بے شمار احادیث انھیں یاد تھیں ۔ ارمغانِ حدیث، لسان القرآن، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ (مترجم)، صوفی عبداللہ رحمہ اللہ ، کاروانِ سلف، قافلۂ حدیث، گزر گئی گزران، ان کی یادگار کتابیں ہیں ۔ انھیں سیکڑوں اشعار ازبر تھے۔ حاضر دماغ بھی بہت تھے۔ ان کا ذہن مناظرانہ تھا، لیکن مناظرے نہیں کرتے تھے۔ مولانا مرحوم نے تاریخ و شخصیات پر جس اسلوب، تسلسل بیاں ، جذبات اور عقیدت سے لکھا ہے، اس سے آپ کا شمار برصغیر پاک و ہند کے صفِ اول کے لکھاریوں میں ہوتا ہے۔ آپ کی وفات سے علم و ادب کی ایک یونیورسٹی بند ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ اللہم اغفر لہ و ارحمہ و عافہ و اعف عنہ۔ آمین 23۔جناب عبدالرحمان عظیم(گوجرانوالہ) قافلۂ حدیث کا شناور حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کا سانحہ وفات علمی حلقوں کے لیے بڑا نقصان ہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ موت سے کسی کو مفر نہیں ۔ جو فرد اس دنیا میں آیا ہے، اسے بہر صورت جلد یا بدیر اللہ تعالیٰ کے حکم سے سفرِ آخرت طے کرنا ہی ہے۔ مولانا صاحب رحمہ اللہ کی زندگی اور موت ’’عاش سعیداً و مات حمیداً‘‘ کا مصداق تھی۔ فرحمہ اللّٰہ دھراً مدیداً۔ موصوف قافلۂ حدیث کے عظیم شناور تھے۔ بے شمار محدثین، اکابر علمائے حدیث کے حالات، خدمات، آثار اور افکار کو ضخیم کتابوں کی صورت میں مرتب کر گئے۔ ان کی کتابوں ہی سے پتا چلا کہ اکابر اہلِ حدیث کی دینی خدمات اور کاوشوں کو تاریخ سازی کے ذریعے کس کس مذہبی جماعت یا تنظیم کے قلم کاروں نے اپنے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی۔
Flag Counter