Maktaba Wahhabi

733 - 924
دبستانِ حدیث، چمنستانِ حدیث اور ان جیسی باقی کتب ان کی افادیِ فکر کا اظہار ہی تو ہیں ۔ ان کا اسلوبِ تحریر فکر انگیز اور علمیت سے لبریز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں فصاحت و بلاغت کے ساتھ ساتھ دل گداز گفتگو کی صفت سے بھی خوب نوازا تھا۔ ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اسے پُر کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا مشن جاری و ساری رہے۔ اللہ تعالیٰ سے خصوصی دعا ہے کہ وہ اپنی رحمتوں سے یہ علمی خلا پر فرمائے اور ان جیسا جماعت کو کوئی اور ہیرا نصیب ہو۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ حضرت مولانا صاحب رحمہ اللہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔ آمین 24۔جناب عمر فاروق سعید(لاہور) عصرِ حاضر کے عظیم اسکالر مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ(المتوفی: ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء)کی رحلت تمام شیوخِ جماعت اور طلاب کے لیے ایک سانحے سے کم نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی نہ صرف بطور ایک عظیم صحافی بلکہ مؤرخ کے بھی ایسی بے مثال خدمات سرانجام دیں کہ جس کی نظیر آپ سے پہلے برصغیر پاک و ہند میں نہیں ملتی۔ ان کی درجنوں شہرۂ آفاق تصانیف ہر دور میں ہر خاص و عام کے لیے ہمیشہ ہر دل عزیز رہی ہیں ۔ مولانا مرحوم علمی رویوں پر گہری نگاہ رکھتے تھے اور بد تہذیبی پر ناراضی کا اظہار فرماتے تھے۔ ان کی تحریر کا اسلوب باقی ادیبوں اور مصنفوں سے جداگانہ ہے۔ ان کی تحریروں میں علم بھی ہے، ادب بھی ہے، تاریخ بھی ہے، تحقیق بھی ہے، ثقافت بھی ہے، کہاوتیں بھی ہیں ، نصیحت بھی ہے، مزاح بھی ہے، ماضی کی گرفتگی بھی ہے، حال کے شکوے بھی ہیں اور مستقبل کی اُمیدیں بھی ہیں ، لیکن وہ یہ سب کچھ بہت خوبصورت لہجے میں بیان کرتے ہیں ۔ ان کی شخصیت پر آج نہ صرف جماعتِ اہلِ حدیث بلکہ ایک عالم ان پر ناز کرتا ہے۔ ایک اور بات کہ ان کی متعدد تصنیفات میں سے بعض اہم کتب ناپید ہیں ۔ اہلِ حدیث مکتبوں کو چاہیے کہ وہ مولانا کی ناپید کتب کو طبع کروائیں ۔ بلاشبہہ وہ عصرِ حاضر کے عظیم اسکالر تھے۔ اللہ تعالیٰ محبت و اخلاص کے اس پیکر کی قبر پر کروڑوں رحمتیں برسائے اور انھیں جنت میں نیک لوگوں کی رفاقت نصیب فرمائے۔ آمین 25۔جناب محمد ارشد بدر(حاصل پور۔ رکن ادارہ تفہیم الاسلام احمدپورشرقیہ ضلع بہاول پور): تاریخ اہلِ حدیث کا معتبر حوالہ ذہبی دوراں حضرت علامہ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ تاریخِ اہلِ حدیث پاک و ہند کا ایک مستند و معتبر حوالہ ہیں ۔ ان کی حیات و خدمات اہلِ حدیث کی راسخ فکر سے لبریز ہے۔ موصوف مایہ ناز ادیب اور قلم کار تھے۔ آپ کی تصانیف مدتوں پڑھی جاتی رہیں گی۔ انھیں ’’آبروئے صحافت‘‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اپنی شخصیت کی طرح ان کی تحریریں بھی نستعلیق تھیں ۔ بذلہ سنجی ان کی طبیعت کا خاصا تھی۔ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ اور ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ ماہنامہ مجلہ ’’تفہیم الاسلام‘‘ اور پاکستان کے اہم ترین جریدوں میں ان کے مضامین اور علمی افکار شائع ہوتے رہے، جو
Flag Counter