Maktaba Wahhabi

741 - 924
6۔مکرمی بھائی سعید احمد بھٹی حفظہ اللہ : السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ! امید ہے مزاج گرامی بخیریت ہوں گے۔ ۲۲؍ دسمبر بڑے غم اور صدمے کے ساتھ یہ خبر سنی گئی کہ آپ کے بھائی اور محسنِ جماعت اہلِ حدیث مولانا محمداسحاق بھٹی رحمہ اللہ اس دارِ فانی سے ۹۱ برس کی عمر میں وفات پا گئے۔ إنا اللّٰہ و إنا إلیہ راجعون۔ مولانا اپنی نیک خوبیوں کے باعث یقینا اپنے مہربان رب کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔ اللہ پاک ان کو کروٹ کروٹ اپنی رحمتوں سے نوازے۔ ان کی قبر کو جنت کا باغ بنائے۔ آمین۔ انھوں نے ایک ہزار سے زیادہ شخصیات پر بیسیوں کتابوں اور رسائل و جرائد میں ان کے حالاتِ زندگی، دینی خدمات اور ان میں سے بہت سے حضرات کے ساتھ اپنے ذاتی تعلقات، مشاہدات اور تاثرات کو بیان کیا۔ ان کی زندگی ہی میں بے شمار حضرات نے ان کی شخصیت کی مختلف جہتوں کو مرکزِ موضوع بنایا۔ مرحوم سید خورشید گیلانی نے اپنی کتاب ’’رشکِ زمانہ لوگ‘‘ میں حضرت مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے پاکیزہ اخلاق، رواداری اور ان کی تصنیفی خدمات پر بہت خوبصورت مضمون لکھ کر انھیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ اسی طرح مولانا محمد رمضان سلفی نے مرحوم کی زندگی ہی میں ان کے متعلق لکھے گئے اربابِ علم و ادب کے چھوٹے بڑے مضامین کو جمع کر کے ایک کتاب کی شکل دے دی تھی۔ اب جنوبی پنجاب کے ضلع بہاول پور کے معروف صحافی و مصنف مولانا حمیداللہ خان عزیز اپنے ماہنامہ مجلے ’’تفہیم الاسلام‘‘ کے ذریعے ان کی خدمات کو اُجاگر کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں ’’ارمغانِ مورخِ اہلِ حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ‘‘کی اشاعت ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ مولانا مرحوم کی وفات کے بعد یہ پہلی منفرد کتاب ہے، جو شائع ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ شائع کنندگان کو اپنی بارگاہ سے خصوصی اجر سے نوازے۔ آمین مجھے محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی خدمت میں دو مرتبہ حاضر ہونے کا موقع ملا۔ پہلی دفعہ مَیں ان کی خدمت میں اپنی کتاب ’’گلشنِ توحید و سنت‘‘ لے کر حاضر ہوا تو بڑے تپاک سے ملے اور کتاب دیکھ کر بہت تعریف فرمائی کہ یہ آپ نے بہت اچھی کاوش کی ہے۔ حالانکہ میری کتاب صرف ’’ضلع حافظ آباد‘‘ کے علمائے اہلِ حدیث و اکابر کی دینی خدمات پر مشتمل ہے، بلکہ اس کتاب کے نام کا مشورہ بھی میں نے انہی سے کیا تھا۔ انھوں نے دوپہر کے کھانے سے تواضع فرمائی اور اپنی ایک تصنیف ’’برصغیر میں اہلِ حدیث کی اولیات‘‘ بطور ہدیہ عنایت فرمائی، جو میرے لیے زندگی کا قیمتی ترین تحفہ ہے۔ میری اُن سے دوسری اور آخری ملاقات اُن کی وفات سے اٹھائیس(۲۸)دن پہلے ۲۵؍ نومبر ۲۰۱۵ء کو ہوئی۔ بعض اہم معاملات کے استفادے کے لیے ان کی رہایش گاہ ساندہ لاہور میں حاضر ہوا۔ ملاقات کوئی تین گھنٹے جاری رہی۔ میں نے یہ گفتگو اپنے موبائل میں ریکارڈ کر لی تھی۔ اب سنتا ہوں تو سارا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ میں نے بھٹی صاحب سے دعا کی درخواست کی تو فرمانے لگے: ’’میں تو خود دعاؤں کا محتاج ہوں ۔‘‘
Flag Counter