Maktaba Wahhabi

750 - 924
3۔تیری تحریریں ہیں عالم کے لیے درسِ حیات! ہم کو رحلت کی گھڑی ماہِ دسمبر یاد ہے وہ غم و اندوہ کا سنگین منظر یاد ہے علم تدریجاً اٹھے گا عالموں کی موت سے قُربِ ساعت کے لیے قولِ پیمبر یاد ہے یہ جہانِ فانی ہے اس کی خرسمی ہے تا بکے؟ فکر دامن گیر ہے اسحاق بھٹی چل بسے تھم ذرا بے تابی دل سوچ لینے دے مجھے تعزیت کی چند سطریں آج لکھنے دے مجھے نیّر تاباں کی فرقت سے بہت غمگین ہوں سانحہ دلدوز ہے آنسو بہانے دے مجھے دوریاں کتنی ہیں لیکن پھر بھی ہم ہیں اشکبار حضرت اسحاق بھٹی پہ ہیں دل سے سوگوار عہد حاضر میں تو پہلے دور کا انسان تھا آبروئے قوم افزوں ہو، انھیں ارمان تھا ایک ہی انساں میں پنہاں تھیں ہزاروں خوبیاں تو صحافی تو مفکر تو سیاست دان تھا ابن رشد اور یعقوبی و ہمدانی تھا تو برگو چک کے لیے فردوسی ثانی تھا تو عالم اسلام کا تو عالم ذیشان تھا سب کا منظور نظر تھا سلفیت کی جان تھا گنج مایہ ناز تھا تو منبع علم و ہنر تیرے دم سے روشن و تابندہ پاکستان تھا دورِ حاضر میں سلف کا ایک نظارہ تھا تو ایک سنجیدہ مورخ انجمن آرا تھا تو تیری تحریریں ہیں عالم کے لیے درسِ حیات مدتوں سیراب ہوگی اس سے پوری کائنات تیرے مضمون و کتب ہیں مثل بحر بیکراں جن میں صدہا قسم کے ہیں گوہر و علمی نکات تو تھا بحر العلم جس میں تھیں بہت گہرائیاں اک شناور ہی سمجھ سکتا ہے وہ پہنائیاں ماضی کی تاریخ تیرے دم سے روشن ہوگئی بزم اردو سعی پیہم سے مزین ہوگئی عرق ریزی سے تری گلشن کو رعنائی ملی تیری گل کاری سے خاکِ ہند گلشن ہوگئی مل گیا تجھ سے جہاں کو وہ متاعِ ارجمند آنے والی نسلِ مسلم جس سے ہوگی بہرہ مند باعث صد ناز ہے وہ علمی سرمایہ ترا مسلکِ اسلاف پر ہر دم رہا سایہ ترا تری دعوت تری غیرت زریں تحریریں تری عالمانِ دین میں معروف تھا پایہ ترا خامہ فرسائی صحافت سے ترا رشتہ رہا مسلکِ قرآن و سنت سے تو وابستہ رہا
Flag Counter