Maktaba Wahhabi

81 - 924
اِک علم و آگہی کا گل ہو گیا چراغ! تحریر: جناب مولانا مجاہد الحسینی۔ فیصل آباد اللہ تعالیٰ نے موت و حیات کا سلسلہ ایسا بنایا ہے کہ دنیا کے اس مسافر خانے میں چند روز قیام کے بعد آخرت کے راہی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں ۔ انہی مسافرینِ آخرت میں برصغیر پاک و ہند کے ایک نامور اہلِ علم و قلم مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی ذاتِ گرامی تھی، جنھوں نے کئی ضخیم کتابوں اور علمی و تحقیقی مقالات کی صورت میں علم و آگہی کے چراغ روشن کر کے لوگوں کے ظلمت کدئہ فکر و نظر کو منور کیا ہے، لیکن وہ وحدتِ اُمت کے داعی اور تمام مکاتبِ فکر کے راہنماؤں اور افراد کے ساتھ ان کے گہرے تعلقات تھے اور اخوت و محبت کے جذبات کا مظاہرہ ان کی زندگی کا شیوہ تھا۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ علمی، ادبی اور صحافتی مشاغل کے دوش بدوش مروجہ سیاسی اُمور میں بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے قبل وہ اپنی جنم بھومی کوٹ کپورہ ریاست فرید کوٹ مشرقی پنجاب میں تحریکِ آزادیِ ہند میں عملاً حصہ لیتے ہوئے کانگریسی راہنماؤں کے دوش بدوش سر گرم عمل تھے اور بھارتی سابق صدر گیانی ذیل سنگھ کے ساتھ ان کے دوستانہ مراسم تھے۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کے ساتھ میرا تعارف ان دنوں ہوا، جب تحریک ختمِ نبوت کے ترجمان روزنامہ ’’آزاد‘‘ لاہور کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ۱۹۵۱ء کو لاہور میں مقیم تھا، ان دنوں مجھے مختلف مکاتب و مسالک کے راہنماؤں کے ساتھ مشاورت کے سلسلے میں جب برصغیر پا ک و ہند کے مرکزی راہنما اور مجلسِ احرار الاسلام کے بانی راہنماؤں میں شامل ممتاز دینی، علمی اور سیاسی شخصیت مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی تو وہاں مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی مجلس میں ایڈیٹر ’’الاعتصام‘‘ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی، جو بعد ازاں گہری اخوت و محبت کے قالب میں ڈھل گئی تھی، چنانچہ مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ بھی اکثر دفتر روزنامہ ’’آزاد‘‘ واقع بیرون دہلی دروازہ لاہور تشریف لا کر اور دیر تک علم و عرفان کی مجلس میں رونق افروز رہتے اور حاضرینِ مجلس کو اپنے وسیع مطالعے سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ علمی و ادبی چٹکلوں اور طنز و مزاح کے تبسم آمیز جملوں سے بھی خوب محظوظ کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کہنے لگے: ’’میں نے بعض ایسے لوگ دیکھے ہیں کہ نماز شروع کرتے ہی کبھی ڈاڑھی اور کبھی جسم میں خراشنے لگتے ہیں ، نامعلوم انھوں نے ’’کھرک فی الصلاہ‘‘ کا مسئلہ کہاں سے سیکھا ہے؟!‘‘ سامعین اس نئی اصطلاح پر لوٹ پوٹ ہو گئے تھے۔
Flag Counter