Maktaba Wahhabi

835 - 924
مورخ اہلِ حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی وفات پر لکھی ہے۔ بیان سادہ اور ہموار ایسا کہ نظم سے ایک لفظ بھی اِدھر اُدھر نہیں کر سکتے۔ ہر لفظ نگینے کی طرح جڑا ہواہے۔ ان کی نظم پڑھ کر شاعری کا لہو رگِ جاں میں دوڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی دیگر نظمیں بھی محبت کا رنگا رنگ اظہار ہوں گی۔ اگر کوئی صاحب نثار احمد اصغر فیضی حفظہ اللہ کے حالات و خدمات سے آگاہ ہوں یا کسی کے پاس ان کا ٹیلی فون نمبر ہو تو برائے کرم مجھے ضرور آگاہ کرے۔ میں ان کا شکر گزار ہوں گا۔ دعا ہے کہ رب کریم ممدوح محترم فیضی صاحب کو علم و ادب سے جوڑے رکھے اور کفرستان میں ان کی دعوتی و دینی خدمات کو قبول فرما کر اُن کے لیے توشہ آخرت بنا دے۔ آمین 78۔انصر نیپالی کھٹمنڈو نیپال کا مشہور دار الحکومت ہے۔ یہ خطہ ارضی قدیم ہندوستان کا حصہ ہے۔ مسلکِ اہلِ حدیث سے وابستہ کثیر افراد وہاں موجود ہیں ۔ اللہ کی مہربانی سے ان کی اپنی مساجد اور مدارس ہیں ، جہاں سے شب و روز توحید و سنت کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں ۔ ’’مرکز ابن باز الاسلامی‘‘ وہاں کا ایک مشہور مدرسہ ہے، جہاں صاحبِ تذکرہ انصر نیپالی درس و تدریس سے منسلک ہیں ۔ موصوف ایک عالمِ دین ،بزمِ حدیث کے روشن چراغ، گلشن علم و ادب کی شمع فروزاں ، علوم و فنون اور تصنیفِ کتب میں مہارت رکھتے ہیں ۔ موصوف شعر و ادب کے شناور ہیں ۔ انڈیا اور نیپال کے رسائل و جرائد میں آپ کے مضامین اور کلام شائع ہوتا رہتا ہے۔ ان کی شاعری میں خوبصورت نظمیں بھی ہیں اور غزلیں بھی۔ خوبصورت عنوان اور دل فریب موضوع پڑھنے والے کو ایک لمحے کے لیے بھی نہیں اُکتاتے۔ ان کے اشعار سے اسلامی تعلیمات کا عکس واضح نظر آتا ہے۔ جناب انصر ؔ صاحب نے اوائلِ تعلیم میں حصولِ علم کے ساتھ ساتھ ادب و شاعری میں بھی قدم رکھا اور اس میدان میں آگے بڑھتے گئے۔ اپنی علمی و تدریسی مصروفیت کے باوجود اچھی شاعری کی تخلیق بھی ان کے مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ انھوں نے محض فیشن کے طور پر شاعری کو اختیار نہیں کیا ہوا کہ لوگ واہ واہ کہیں گے، بلکہ اپنے خطے کے لوگوں کی ذہنی اپروچ کا اندازہ کر کے کتاب و سنت کی تعلیمات کو منظوم صورت میں پیش کرنے کا داعیہ ان کے دل میں اُبھرا، جسے انھوں نے لفظوں میں بکھیر دیا۔ انصر نیپالی صاحب کا اصل نام نصیر احمد ہے۔ ان کے متعلق جو کچھ معلوم تھا، لکھ دیا گیا ہے۔ تاہم مجھے ان کے حالات و افکار کے متعلق مزید معلومات درکار ہیں ۔ ہندوستان اور نیپال کے جماعتی حلقے اس سلسلے میں میری کوئی مدد کر سکیں تو ان کا شکر گزار رہوں گا۔ اگر خود انصر نیپالی صاحب کی نظر سے یہ سطور گزریں تو براہِ کرم رابطے کی کوئی صورت پیدا کر لیں ۔ جزاکم اللّٰہ خیراً۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں علم و ادب کے میدان میں اور زیادہ ترقی عطا فرمائے اور تا دیر قلم و کتاب سے رشتہ استوار رہے۔ آمین
Flag Counter