Maktaba Wahhabi

415 - 467
امیر الزیمتہ فواد شاکر لکھتے ہیں ’’ ایک دفعہ 1359 ھ(1940ء) میں شاہ عبد العزیز مکہ مکرمہ تشریف لا رہے تھے۔ ہم ان کے استقبال کیلئے مکہ مکرمہ سے باہر گئے۔ پتا چلا کہ وہ السیل سے نکلے ہیں اور الزیمتہ پہنچنے والے ہیں۔ اس دوران وہاں بدوؤں کی بڑی تعداد بھی ان کے استقبال کے لئے موجود تھی۔ جب شاہ عبد العزیز کا کاروان پہنچا تو بدوؤں نے لائن میں کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا۔ وہ گاڑی سے اتر کر اس جگہ پہنچے جو ان کے لئے بنائی گئی تھی۔ جب لوگ سلام کر کے بیٹھ گئے تو شاہ عبد العزیز نے امیر الزیمہ سے کہا کہ میں اپنے ہمراہ جو رقم لایا تھا وہ تو راستے میں ختم ہو گئی۔ کیاتم ادھار دے سکتے ہو۔‘‘ اس نے کہا کہ اعلیٰ حضرت کا حکم سر آنکھوں پر۔ چنانچہ جو کچھ اس کے پاس تھا وہ لے آیا۔ خادموں کو شاہ عبد العزیز نے احکامات دئیے کہ وہ یہ رقم لے کر رکھ لیں۔ اس دوران کسی نے سوچا کہ امیر الزیمہ سے قرضہ لینے کی کیا ضرورت ہے۔ چند میل پر تو مکہ مکرمہ رہ گیا ہے۔ لیکن امیرالزیمہ نے کہا۔ ’’ ان پر مہربانی اور شفقت کا غلبہ ایسا ہے کہ وہ غریبوں، ناداروں پر خرچ کرتے رہتے ہیں۔ ابھی مکہ مکرمہ اور الزیمتہ کے درمیان چالیس میل کا فاصلہ ہے۔ اس دوران ان کا گزر بدوؤں کے علاقوں سے ہو گا۔ اور لوگ انتظار میں ہونگے۔ چنانچہ انہوں نے باقی سفر کیلئے رقم لے لی تا کہ راستے کے لوگوں کو امداد دی جائے۔‘‘ سچ ہے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے والے نیک عمل ہیں۔ اور اللہ کسی کے نیک عمل کو ضائع نہیں کرتا۔
Flag Counter