Maktaba Wahhabi

252 - 665
مولانا فقیر اللہ مدراسی آج سے 80۔85سال پیشتر برصغیر کے ایک مشہور اہلحدیث عالم مولانا فقیر اللہ مدراسی گزرے ہیں جنھیں بعض لوگ فقیر اللہ پنجابی، اور بعض فقیر اللہ بنگلوری کہا کرتے تھے۔مولانا ممدوح 1280ھ(1863ء) کو کٹھ مصرال شاہ پور(ضلع خوشاب پنجاب) میں پیداہوئے۔والدین نے ان کا نام فقیر محمد رکھا تھا۔مگر انھوں نےفقیر اللہ کے نام سے شہرت پائی۔والد کانام فتح دین اورداداکا عبداللہ تھا۔راجپورت برادری سے تعلق رکھتے تھے۔گھر کا ماحول دینی اور علمی تھا۔ابتدائی تعلیم اپنے برادر کبیر مولانا محمد سے حاصل کی جو حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی کے شاگرد تھے۔اس کے بعد شیخ حسین عرب سے مستفید ہوئے۔حضرت حافظ عبدالمنان وزیر آبادی کی خدمت میں حاضری دی اور ان کے چشمہ فیض سے سیراب ہوئے۔وزیر آباد سےامرتسر کا قصد کیا۔امرتسر کے مدرسہ غزنویہ کا اس وقت بڑا شہرہ تھا اور اس کی مسند تدریس حدیث پر حضرت الامام سید عبدالجبار غزنوی متمکن تھے۔مولانا فقیر اللہ نے ان کے علم وعرفان سے خوب استفادہ کیا۔یعنی ان سے حصول علم بھی کیا اور ان کے حلقہ بیعت میں بھی داخل ہوئے۔امرتسر سے فراغت کےبعد دہلی گئے اور شیخ الکل حضرت میاں صاحب سید نذیر حسین کے آستانہ فضیلت پر حاضری دی۔ان سے کتب پڑھیں اور سند واجازہ سے مفتخر ہوئے۔ قیام دہلی کے زمانے میں مولانا محمد بشیر سہسوانی سے بھی اکتساب علم کیا اورمولانا محمد اسحاق منطقی رام پور سے منطق وفلسفہ کی انتہائی کتابیں پڑھیں۔علوم متد اولہ کی تحصیل سے فراغت پائی تو مولانا فقیر اللہ مدراسی کی خدمات مطبع مجتبائی(دہلی) کے مالکوں نے کتب حدیث کی تصحیح کے لیے حاصل کرلیں۔یہ اس زمانے میں نہایت اہم کام تھا جو مولانا فقیر اللہ مدراسی کے سپرد کیا گیا۔یہ کام اس عہد میں حدیث کے کسی بہت بڑے ماہر ہی کے سپرد کیا جاتا تھا اور مولانا فقیر اللہ مدراسی کا شمار ماہرین حدیث میں ہوتا تھا۔ ان دنوں بنگلور اور اس کے اطراف واکناف میں ایک حنفی عالم مولانا محمد سلطان احمد بریلوی نے بعض مسائل میں اہلحدیث کے خلاف ایک مہم شروع کررکھی تھی۔اور اس ضمن میں تحریر وتقریرمیں ان کا وہی انداز تھا جو ان حضرات کے ساتھ مخصوص ہے۔اس کے جواب کے لیے سنجیدہ فکر کے کسی اہل حدیث عالم کی ضرورت تھی، چنانچہ بنگلور کے ایک سوداگر سید عباس شاہ نے حضرت میاں
Flag Counter