Maktaba Wahhabi

298 - 665
مولانا محمد یونس دہلوی اکتوبر 1945؁ ء میں استاذ محترم حضرت مولانا عطاء اللہ حنیف کے ساتھ جمعیت علمائے ہند کی ایک میٹنگ میں یہ فقیر دہلی گیا تو ان کی معیت میں حضرت میاں سید نذیر حسین دہلو ی رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسے میں حاضر ی کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس مدرسے کو دیکھ کر ذہن بے قابو ہو کر ماضی کے اس دور میں پہنچ گیا جب وہاں حضرت میاں صاحب کی بارگاہ علم میں ہندوستان اور مختلف ممالک کےبڑے بڑے لوگ اکتساب فیض کے لیے حاضر ہوتے اور ان سے استفادہ کرتے تھے۔ اس پاکباز جماعت میں حضرت سید عبداللہ غزنوی، حافظ محمد لکھوی، مولانا شمس الحق عظیم آبادی، مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری، مولانا محی الدین عبدالرحمٰن لکھوی، حافظ عبدالمنان وزیر آبادی، شاہ سلیمان پھلواروی، مولانا محمد بشیر سہسوانی، حافظ عبداللہ غازی پوری، مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی اور دیگر بہت سے عالی قدر لوگ چشم تصور میں بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ اور پھر حضرت ممدوح کے آخری دور کے شاگردوں میں سے مولانا احمد اللہ پر تاب گڑھی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی کے علاوہ متعدد خوش بخت بزرگوں کی ایک لمبی قطار دکھائی دی۔ اسی موقعے پر یہ فقیر پہلی مرتبہ مدرسہ میاں صاحب میں حضرت مولانا محمد یونس پر تاب گڑھی (دہلوی) کی زیارت سے بہرہ مندہوا۔ لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کہ مولانا محمد یونس صاحب سےمتعلق کچھ عرض کرنے سے پہلے مولانا ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی کی وساطت سے مدرسہ میاں صاحب کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ مولانا ابو یحییٰ نوشہروی کو متعدد مرتبہ اس مدرسے میں جانے کے مواقع ملے ہیں اور وہ مولانا محمد یونس مرحوم و مغفور کے حلقہ درس میں بھی شامل ہو تے رہے ہیں۔ انھوں نے دہلی ہی میں اپنی معروف کتاب”تراجم علمائے حدیث ہند“لکھی۔ مولانا ابو یحییٰ امام خاں صاحب تحریر فرماتے ہیں۔ اس مدرسے کی بنیاد شیخ الکل حضرت مولانا سید نذیر حسین صاحب نے اپنے دست مبارک سے رکھی اور تقریباً اس(80)سال تک وہ اسی مدرسے میں درس قرآن و حدیث وغیرہ دیتے رہے۔ہندوستان کے جملہ مشاہیر علماء و فضلا ءاسی گلستان کے پھول ہیں۔ حضرت میاں صاحب کی آخری وصیت فرزندان توحید کے نام یہی رہی کہ اس میرے لگائے ہوئے باغ کی آبیاری کرتے رہیں۔ بعد رحلت حضرت میاں صاحب
Flag Counter