Maktaba Wahhabi

359 - 665
مولانا ابو الحسنات علی محمد سعیدی 1947؁ءکے انقالاب کے بعد جن اصحاب علم سے تعارف ہوا اور تعلقات استوار ہوئے ان میں مولانا علی محمد سعیدی کی ذات گرامی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ درمیانہ قد، گندمی رنگ، دبلے پتلے، کم گو، خوش مزاج اور بلند اخلاق۔ علمی اور تحقیقی ذوق کے مالک، تدریس اور تحریر کے دلدادہ۔ ان کی کنیت مولانا ابو الحسنات تھی۔ مولانا ممدوح مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور کی تحصیل زیرہ کے ایک گاؤں”صدروالا“میں 1912؁کے پس و پیش پیدا ہوئے۔ تحصیل زیرہ میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور مسلمانوں میں بھی اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگ زیادہ تعداد میں تھے۔برادریوں کے لحاظ سے میرے خیال میں آرائیں برادری اس تحصیل میں سب سے زیاہ تعداد میں تھی۔ جہاں تک میں جانتا ہوں دین داری اور تقویٰ شعاری میں بھی یہ لوگ اپنا ایک مقام رکھتے تھے۔ ان میں علمائے دین بھی تھے۔لیکن مولانا علی محمد سعیدی کے گھرانے میں کوئی عالم دین نہ تھا۔تعلیم و تعلم سے اس خاندان کو کوئی دلچسپی بھی نہ تھی۔ لیکن مولانا علی محمد کو کیونکر دلچسپی پیدا ہوئی اور انھوں نے کس طرح علم حاصل کیا؟ بات یہ ہے کہ اس گاؤں (صدر والا) میں ایک نیک سرشت اور صالح بزرگ رہتے تھے، جن کانام صوفی ولی محمد تھا۔ وہ خود تو کوئی بڑے عالم نہ تھے مگر اصحاب علم سے تعلق رکھتے تھے اور انھیں دینیات کی ان کتابوں کے مطالعہ کا شوق تھا جو اس وقت اُردو زبان میں حاصل ہو سکتی تھیں۔ وہ پیر محبوب شاہ مکھوی مرحوم کے عقیدت مند اور ان سے فیض یافتہ تھے۔ مولانا علی محمد سعیدی کو حصول علم کا شوق تھا، انھوں نے ابتدائی تعلیم انہی صوفی ولی محمد سے حاصل کی۔ بعد ازاں انہی کے کہنے سے موضع مکھو پہنچے اور پیر محبوب شاہ مرحوم کے بیٹے سید عبدالرحیم شاہ سے چند کتابیں پڑھیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ موضع مکھو اس زمانے میں ضلع فیروز پور کی تحصیل موگا کا ایک مشہور گاؤں تھا۔ اسی گاؤں میں سید عبدالرحیم شاہ سکونت پذیر تھے جو اس نواح میں اپنے عہد کے معروف عالم اور مشہور واعظ و مناظر تھے۔حضرت مولانا امرتسری کی تربیت سے جن علما ءنے فن مناظرہ میں شہرت پائی، ان میں سید عبدالرحیم شاہ کا نام بہت نمایاں تھا۔صالحیت میں بھی اپنا ایک مقام رکھتے تھے۔ گاؤں میں ان کا دینی مدرسہ بھی قائم تھا۔ انھوں نے 1932؁ء میں وفات پائی۔ مولانا علی محمد سعیدی نے تحصیل علم کے ابتدائی عہد میں ان سے استفادہ کیا۔
Flag Counter