Maktaba Wahhabi

367 - 665
حافظ احمداللہ بڈھیمالوی ضلع فیروز پور کی تحصیل مکتسر میں ایک گاؤں”بڈھیمال“تھا جو حجم اور آبادی کے لحاظ سے بہت مختصر تھا، مگر اہل علم کا مسکن تھا۔حافظ احمداللہ کا آبائی مسکن یہی گاؤں تھا اور میری ان سے پہلی ملاقات اسی گاؤں میں ہوئی تھی۔وہ ان کی بھرپور جوانی کا زمانہ تھا۔میانہ قد، گدازجسم، گوراسرخ رنگ، تیکھے نقوش، موٹی چمکدار آنکھیں، گھنی سیاہ داڑھی، سفید تہبند اورسفید قمیص میں ملبوس، سرپرسفیدعمامہ، گرجدارآواز اوراچھے خطیب۔اپنے گاؤں کی خطابت وامامت کے منصب پر فائز۔پھر اس خوبصورت اورجرأت مند عالم دین سے ملاقاتوں کاسلسلہ ہمیشہ جاری رہا۔آخری ملاقات 28۔فروری 1998ء کو مولانامحی الدین لکھوی کے جنازے میں دیپال پورکےقریب موضع الٰہ آباد میں ہوئی۔اس گاؤں کا پہلا نام تاراسنگھ تھا۔اس وقت گردشِ لیل ونہار سے حافظ احمدللہ کی جوانی بڑھاپے کا روپ دھار چکی تھی۔داڑھی سفید ہوگئی تھی اورتہبند کی جگہ شلوارنے لے لی تھی۔پھر اس سے کچھ عرصہ بعد ان کے جنازے میں(ان کے گاؤں چک نمبر 36 گ ب) میں شامل ہوا اور انھیں اپنے سامنے سپردخاک ہوتے دیکھا۔انقلاب دوراں دیکھئے کہ جوہاتھ نہایت شوق سے مصافحہ کے لیے ان کی طرف بڑھتے تھے، انہی ہاتھوں سے ان کی قبرپر مٹی ڈالی گئی۔ حافظ احمداللہ کا سلسلۂ نسب یہ ہے:احمداللہ بن قادر بخش بن علی محمد بن حمید بن شمس دین بن خالد بن محمد شریف بن محمد امین بن حافظ حبیب الرحمٰن۔سلسلۂ نسب کے یہ بہت خوبصورت نام ہیں۔اس سلسلے کے آخری بزرگ حافظ حبیب الرحمٰن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت پیر پیراں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے خالہ زاد بھائی عون بن عبدالاعلیٰ عرف قطب شاہ کی اولاد میں سے تھے جن کا نسب نامہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عباس سے جا ملتا ہے۔ میں نے حافظ احمداللہ کے والد میاں قادر بخش کو بھی دیکھا ہے اور ان کے دادا حاجی علی محمد کی زیارت بھی کی ہے جو بڑی عمر کو پہنچ کرفوت ہوئے تھے۔اچھی ڈیل ڈول کے بارعب بزرگ تھے۔نابینا ہوگئے تھے لیکن کسی کے ساتھ آکر نماز مسجد میں باجماعت پڑھتے تھے۔گاؤں میں دور تک پھیلی ہوئی زمینوں کے مالک تھے۔ان کے ایک ہی بیٹے تھے، جن کا نام قادربخش تھا۔وہ پنجابی کے شاعر تھے۔انھوں نے اپنے گاؤں کے ایک بڑے عالم اور اپنے عزیز مولانا عبدالرحمٰن کے حالات پنجابی نظم میں لکھے تھے جو کتابی شکل میں شائع ہوئے تھے۔اب وہ کتاب بالکل نایاب ہے۔
Flag Counter