Maktaba Wahhabi

445 - 665
مولانا محمود احمد میر پوری بعض حضرات سے نہایت مخلصانہ مراسم کےباوجود بالکل یاد نہیں رہتا کہ ان سے پہلی ملاقات کب ہوئی اور کہاں ہوئی اور ان سے تعلقات کی صورت کیسے پیدا ہوئی۔ مولانا احمد میر پوری اس فقیرکا بے حد احترام کرتے تھے اور جب پاکستان تشریف لاتے تو مجھ سے ان کی ضرور ملاقات ہوتی تھی۔ مولانا محمد حنیف ندوی اور اس فقیر سے ملنے کے لیے وہ کئی دفعہ ہمارےاس دور کے دفتر ادارہ ثقافت اسلامیہ بھی تشریف لے گئے اور انگلستان میں ان کی علمی سر گرمیوں اور اس ماحول میں ان کی عملی جدو جہد کے بارے میں بہت سی باتیں ہوئیں۔مگر یہ یاد نہیں پڑتا کہ ان سے پہلا تعارف کب ہوا؟کہاں ہوا اور پھر اس تعارف نے باہمی تعلقات کی شکل کیسے اختیار کی؟ وہ خوب رو، خوش لباس اندام، شریں گفتار اور مجسمہ خلوص نوجوان عالم تھے۔ چہرے کے نقوش ان کی ذہانت کی نشاندہی کرتے تھے اور زبان کی مٹھاس ان کے صحیح ترین مبلغ اسلام ہونے کی غماز تھی۔وہ مناسب ڈیل ڈول اور میانہ قد کی دلآویز شخصیت کے مالک تھے۔وہ ارض کشمیر کی حسین سر زمین کے حسین فرزند تھے جو کشمیرکے موجودہ جغرافیائی حساب سے ضلع میر پور کےموضع نگیال(آزاد کشمیر)میں6۔مارچ1945؁ءکو پیدا ہوئے۔یعنی آزادی وطن سے ڈیڑھ سال قبل اس عالم آب وگل میں انھوں نے پہلا سانس لیا۔ ولادت سے چند ماہ بعد ان کی والدہ وفات پاگئی تھیں۔ان کی تربیت کاآغاز اپنے ننھیال میں مرحوم نانا حاجی محمد حسن کی نگرانی میں ہواجو اس نواح کے صالحیت شعار بزرگ تھے۔والد کا اسم گرامی مولوی نور محمد تھا۔ آٹھویں جماعت موضع جمال کے ہائی سکول میں پاس کی۔ ابتدا ہی سے مذہبی رجحان رکھتے تھے۔چنانچہ سکول میں اکثر قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہتے۔ چھوٹی عمر میں والد بھی انتقال کر گئے تو تربیت کا بار چچا پر آپڑا۔ والد کی تمنا بیٹے کو دینی تعلیم دلانے کی تھی۔چنانچہ مڈل پاس کرنے کے بعد انھیں گوجرانوالہ کی درسگاہ جامعہ اسلامیہ میں داخل کرادیا گیا۔اس وقت وہاں اساتذہ کرام تھے حضرت حافظ محمد گوندلوی اور مولانا ابو البرکات احمد۔ ان عالی مرتبت اساتذہ کے حلقہ شاگردی میں جو تلامذہ ان دنوں شامل تھے۔وہ تھےمولانا محمد اعظم، مولانا حفیظ الرحمٰن لکھوی، علامہ احسان الٰہی ظہیر، مولانا ثناء اللہ سیالکوٹی(مدیر ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم اور خطیب سپکٹن۔(برطانیہ) مولانا محمد حیات ڈسکوی اور بعض
Flag Counter