Maktaba Wahhabi

464 - 665
مولانا عبدالصمدرؤف 1949؁ءمیں پنجاب کے اہل حدیث مدارس کے طلبا کی تنظیم کے لیے حافظ محمد یحییٰ عزیز میر محمدی، مولانا ابو بکر سلفی، خلیل اثری اور ان سطور کا راقم اوڈانوالہ (چک نمبر493 گ ب) گئےتو پہلی دفعہ وہاں جن حضرات سے ملاقات ہوئی، ان میں مولانا عبدالصمدرؤف بھی شامل تھے۔یہ ان کی نو جوانی کا زمانہ تھا۔ ان کا اس وقت حلیہ اب تک لوح قلب پر مرتسم ہے۔گول چہرہ سرخی مائل رنگ، روشن آنکھیں، کشادہ پیشانی، ابھری ہوئی ذراسی موٹی ناک، میانہ قد، تہبند اور قمیص میں ملبوس۔سرپرپٹکا لباس خالص دیہاتی اور لہجہ ابنالوی۔ وہ تدریس کا فریضہ تو وہاں کے مدرسہ تعلیم الاسلام میں انجام دیتے ہی تھے، لیکن مجھے یہ معلوم کر کے خاص طورسے خوشی ہوئی کہ وہ ادبی ذوق بھی رکھتے ہیں، انھوں نے نے گفتگو میں جن لوگوں کا تذکرہ کیا، وہ اپنے دور کے صاحب طرز ادیب تھے اور جن کتابوں کے نام لیے وہ خالص ادبی کتابیں تھیں۔ بعض ادبی رسالوں کے مضامین کا بھی انھوں نے تذکرہ فرمایا۔ ان کی اس قسم کی گفتگو سے میرے ذہن پر ان کا جوتا ثر ابھرا وہ ہمیشہ قائم رہا، اب بھی قائم ہے۔ اس گاؤں کے لوگوں کو آباد کار کہا جاتا ہے اور ان کا قدیم وطن ضلع انبالا کی تحصیل روپڑتھا۔یہ لوگ اس وقت اپنے قدیم وطن سے یہاں آئے تھے، جب انیسویں صدی کے آخری اور بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں لائل پور(موجودہ فیصل آباد) کے علاقے کی چک بندی ہوئی اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے آنے والوں کو یہاں زمینیں الاٹ کی جانے لگیں۔اس وقت روپڑ کا قصبہ ضلع انبالا کی ایک تحصیل تھا اور صوبہ پنجاب میں شامل تھا، اب روپڑ کو ایک مستقل ضلع کی حیثیت حاصل ہے اور یہ ضلع صوبہ ہریانہ(یا ہماچل پردیش) میں شامل ہے۔یہاں یہ یادرہےکہ تقسیم ملک کے بعد مشرقی پنجاب کو حکومت ہند نے تین صوبوں میں تقسیم کردیا تھا۔ ایک صوبے کا نام پنجاب ہی رہا، دوسرے کو ہریانہ اور تیسرے کو ہماچل پردیش کہا جانے لگا۔ پنجاب کا دارالحکومت پٹیالہ اور ہریانہ اور ہماچل پردیش کا دارالحکومت چندی گڑھ ہے۔ مولانا عبدالصمد رؤف کےوالد کا اسم گرامی صوفی محمد ابراہیم تھا۔جو1880؁ءمیں موضع روپ نگر تحصیل روپڑ ضلع انبالا میں پیدا ہوئے۔ روپ نگر بڑا خوبصورت نام ہے اور”روپ“کے معنے پنجابی اور ہندی میں خوبصورتی کے ہیں اور جوانی کی خوبصورتی جسم پر لہرارہی ہو تو سبحان اللہ۔ ؎ حسینوں کے جو بن پہ چھایا ہے روپ
Flag Counter