Maktaba Wahhabi

469 - 665
حافظ عبدالرحمٰن گوہڑوی برصغیر کی آزادی (اگست 1947؁ء)کے بعد زمانہ ان لوگوں کے لیے بے حد افراتفری اور انتہائی بے چینی کا زمانہ تھا جو مشرقی پنجاب یا ہندوستان کے کسی علاقے سے گرتے پڑتے پاکستان پہنچے تھے لیکن جو لوگ پہلے سے پاکستانی علاقوں کے رہنے والے تھے، ان کے لیے یہ انتہائی مسرت کا دور تھا ان میں سے زیادہ تر لوگ ماشاء اللہ غیر مسلموں کے چھوڑ ہوئے اثاثےیعنی مال غنیمت اکٹھا کرنے کے کار خیر میں مصروف تھے۔ یہ اللہ کا ان پر خاص کرم تھا جس کی بدولت وہ بدرجہ غایت محنت اور بھاگ دوڑ سے یہ فریضہ سر انجام دے رہے تھے۔جو کسی کے ہاتھ آیا۔ اس پر قبضہ کرنا اور زیادہ کے لیے کوشاں ہونا ان کے نزدیک وجوب کا درجہ رکھتا تھا۔ ہم لوگ جس گاؤں میں آکرسکونت پذیر ہوئے یا اس دور کی اصطلاح میں”بیٹھے“اس میں اگرچہ ہم سبھی مشرقی پنجاب کے ایک ہی مقام کے رہنے والے تھے، جد پشتی ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے اور آپس میں دکھ سکھ کے سانجھی تھے، تاہم سب بے چین اور بے قرارتھے۔اس وقت کا زمانہ حال نہایت تکلیف سے گزر رہا تھا اور مستقبل کا کچھ پتا نہ تھا کہ کس صورت میں جلوہ گر ہوگا اور کس کے ساتھ کیا بیتے گی۔ 21۔اگست1947؁ ءکو ہم قصور پہنچے تھے اور اس سے تیسرے دن حضرت مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی سے وہاں ملاقات ہوئی تو انھوں نے فرمایا تھا کہ وہ گوندلاں والے چلے گئے ہیں اور ان کے بعض قریبی رشتے دار بھی اپنے گاؤں بھوجیاں (ضلع امرتسر) سے وہاں پہنچ گئے ہیں اس لیے مجھے معلوم تھا کہ انھوں نے گوندلانوالہ سکونت اختیار کر لی ہے، چنانچہ ان سے اور ان کے رشتے داروں سے(جو پہلے سے مجھے جانتے تھے)ملنے کے لیے میں گوندلاں والے پہنچا۔خیال یہ تھا کہ دو چار دن وہاں رہوں گا ان سے ادھر اُدھر کی باتیں ہوں گی اور دل کو تھوڑا بہت اطمینان حاصل ہوگا۔ مجھے یاد پڑتا ہےیہ نومبر کا وسط تھا یا چند روز اس سے آگے پیچھے کی بات ہوگی۔ قطعی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ وہاں پہنچا تو پتا چلا کہ حضرت مولانا نے وہاں تدریس کا سلسلہ شروع فرما دیا ہے۔ لیکن یہ سلسلہ ابھی تک محدود ہے، صرف چند طلبا پر مشتمل۔۔۔!ان میں سے دو طلبا کو میں نے دیکھا۔ دونوں نوجوان تھے۔ ایک کچھ بڑے دوسرے ان سے چھوٹے، بڑے کی چھوٹی چھوٹی داڑھی تھی اور تہبند
Flag Counter