Maktaba Wahhabi

482 - 665
مولانا محمد علی جانباز مشرقی پنجاب کا ضلع فیروز پور علم وعلماء کے اعتبار سے پُر ثروت ضلع تھا۔اس کے مختلف دیہات وقصبات میں بے شمار اہل علم پیدا ہوئے، جن کی تدریسی، خطابتی اور تصنیفی نگ وتاز سے لاتعداد لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب آیا اور وہ کتاب وسنت کی صراط مستقیم پر قدم فرسا ہوئے۔قدیم دور کے فیروز پوری اصحاب علم سفرِ آخرت اختیار کرچکے ہیں، لیکن ایسے بہت سے لوگ اب بھی موجود ہیں، جنھوں نے اس علاقے میں جنم لیا۔آزادی ٔ برصغیر کے بعد پاکستان آئے، یہاں آکر دینی علوم کی تحصیل کی اور پھر تصنیفی اور تدریسی صورت میں کتاب وسنت کی خوب اشاعت فرمائی۔مولانا محمد علی جانباز کا شمار انہی خوش بخت حضرات میں ہوتاہے، جن کا مولد تو ضلع فیروز ہے لیکن تعلیم پاکستان آکر حاصل کی اورپھر تصنیف وتدریس کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا۔ مولانا موصوف کا تعلق راجپوت وٹو برادری سے ہے۔وہ 1934ء؁ میں ایک گاؤں”چک بدھوکے“ میں پیدا ہوئے جو(ریاست ممدوٹ) ضلع فیروزپورمیں واقع ہے۔ضلع فیروز پور میں نواب ممدوٹ کے 84گاؤں تھے اور وہ متحدہ پنجاب کے سب سے بڑے زمیندار تھے۔اس خاندان کے آخری نواب کا نام افتخار حسین خاں تھا جو تقسیم ملک سے قبل پنجاب مسلم لیگ کے صدر تھے۔قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصہ مغربی پنجاب(یعنی موجودہ پنجاب) کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔ مولانا محمد علی جانباز کے بزرگ لکھوی علمائے کرام کے عقیدت مند تھے اورمسئلے مسائل کے لیے انہی سے رجوع کرتے تھے۔انہی حضرات کے اثر تبلیغ سے اس خاندان کے لوگ مسلک اہلحدیث سے وابستہ ہوئے۔مولانا محمد علی لکھوی کی خدمت میں بالخصوص ان لوگوں کی حاضری کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ محمد علی جانباز کی عمر بارہ تیرہ سال کے لگ بھگ تھی کہ ایک عالم دین جن کا نام مولانا محمد تھا۔ان کے گاؤں(چک بدھوکے) تشریف لائے۔وہ جامعہ رحمانیہ دہلی کے فارغ التحصیل تھے۔گاؤں کے لوگوں کی درخواست پر مولانا محمد وہیں مقیم ہوگئے۔اور تقسیم ملک تک وہیں خطابت وتدریس میں مصروف رہے۔محمد علی جانباز کی تعلیم کا آغاز انہی مولانا محمدرحمانی سے ہوا۔ تقسیم ملک کے بعد مولانا محمد علی جانباز کاخاندان ضلع فیصل آباد کے چک نمبر 88 میں آباد ہوا۔ اس گاؤں میں ایک عالم دین حافظ برکت اللہ رہتے تھے جو دارالعلوم دیوبند کے سند یافتہ تھے۔محمد علی
Flag Counter