Maktaba Wahhabi

521 - 665
مولانا عبداللہ امجد چھتوی تقسیم ملک سے قبل متحدہ ہندوستان میں چھوٹی بڑی ساڑھے پانچ سو سے زائد ریاستیں تھیں، جن پر طویل مدت سے راجے مہاراجے اور نواب نسلاً بعدنسل حکومت کرتے چلے آرہے تھے۔اگست 1947ء؁میں ملک آزاد ہوکر ہندوستان اور پاکستان کے نام سے دوحصوں میں بٹا تو ہندوستان کی کانگرسی حکومت نے ریاستی ختم کردی تھیں۔ان ریاستوں میں ایک ریاست کا نام”بیکانیر“تھا۔تقسیم ملک کے بعد اس ریاست کو حکومت ہند نے صوبہ راجستھان میں شامل کردیا تھا۔مولانا عبداللہ امجد کے آبا ؤاجداد آزادیٔ ملک سے قبل اسی ریاست کے ایک گاؤں میں سکونت پذیر تھے، جس کا نام دبلی پاس(یعنی آبادی) تھا۔یہ بستی ریاست بیکانیرکی تحصیل، بنومان گڑھ ضلع گنگا نگر میں تھی۔عرفِؒ عام میں اسے”ڈھانی“ کہا جاتا تھا۔اس نواح میں ڈھانی کا اطلاق چھوٹی بستی یا آبادی پر ہوتا تھا۔اور تین چار ڈھانیاں تھیں جوقریب قریب واقع تھیں، ان میں سے ہرڈھانی پر ایک دوسری سے امتیاز کے لیے بطور لاحقہ کوئی لفظ لگا لیا گیا تھا۔مولانا عبداللہ امجد والی ڈھانی کو”دبلی باس“ کے لاحقے سے دوسری ڈھانپوں سے ممتیز کیا گیا تھا۔ ان کے خاندان کی رشتے داریوں کا حلقہ دور تک پھیلا ہوا تھا، مثلاً پٹیالہ میں رحمۃ للعالمین کے مصنف نام دار قاضی محمد سلیمان منصور پوری سے ان کا تعلق تھا تو ضلع فیروز پور کی ایک چھوٹی سی بستی بڈھیمال کے لوگوں سے بھی ان کے رشتے ناتے قائم تھے۔بڈھیمال بھی علمائے کرام کا مسکن تھا اور ڈھانی میں بھی متعدد اہل علم نے جنم لیا اور ان کے حدودَِ اثرات وسیع ہوئے۔قاضی محمد سلیمان منصور پوری مرحوم ومغفور ایک مرتبہ عبداللہ امجد کے کسی بزرگ کی شادی میں ڈھانی تشریف لے گئے تھے اور ان کا نکاح قاضی صاحب نے پڑھایا تھا۔ تقسیم ملک سے پہلے ہمارے دوست مولانا محمد یاسین شاد کے خاندان کا تعلق سکونت بھی اسی ڈھانی سے تھا۔یہ اہلحدیث خاندان ہے جو ملتان میں اقامت گزیں ہےمولانا محمد یاسین شاد کتاب دُوست اور صاحب مطالعہ عالم دین ہیں۔انھوں نے اپنے والد محترم کے نام سے ملتان میں ”عبدالرحمٰن اسلامک لائبریری“ قائم کی ہے اورخود جگہ خرید کر ایک مسجد تعمیر کرائی ہے۔عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ڈھانی بے شک چھوٹا ساگاؤں تھا، لیکن اصحاب علم کا مجمع اوراہلحدیث کا مسکن تھا، جہاں جناب علامہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری جیسی عظیم شخصیتیں قدم رنجہ فرما چکی تھیں۔بلاشبہ اس
Flag Counter