Maktaba Wahhabi

529 - 665
مفتی عبید اللہ خاں عفیف مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں ایک گاؤں کا نام ”کُٹی بلوچاں “تھا۔اس گاؤں میں ایک بزرگ میاں علی محمد سکونت پذیر تھے جو اہل حدیث مسلک سے وابستہ تھے۔ان کی تبلیغ سے وہاں کے بلوچ خاندان کے ایک فرد محمد اسماعیل نے مسلک اہل حدیث اختیار کیا۔ پھر محمد اسماعیل کو حصول علم کا شوق پیدا ہوا تو وہ لکھو کے چلے گئےجوضلع فیروز پور کا ایک مشہور تدریسی مرکز تھا اور بہت سے ممتاز علمائے کرام نے وہاں کے اساتذہ سے تحصیل علم کی تھی۔ وہ مرکز تدرس قیام پاکستان کے بعد جامعہ محمدیہ کے نام سے اوکاڑہ میں منتقل ہوگیا تھا جو اللہ کی مہربانی سے کامیابی کے ساتھ اپنا تدریسی سفر طے کر رہا ہے۔ محمد اسماعیل خاں بلوچ نے لکھوی علمائے کرام سے استفادے کےبعد دیوبند کا رخ کیا اور وہاں کے دارالعلوم کے اصحاب علم سے فیض حاصل کرنے لگے۔ لیکن دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ کو جب یہ پتا چلا کہ محمد اسماعیل بلوچ اہل حد یث ہے اور اپنے گاؤں میں اس نے اقامت جمعہ کے فریضہ کا احیا کیا ہے تو انھوں نے ان کو دارالعلوم سے نکال دیا۔ اب وہ دہلی آگئے اور حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی کے شاگرد رشید حضرت مولانا احمد اللہ محدث پرتاپ گڑھی دہلوی کے حلقہ درس میں شریک ہو کر ان سے کتب حدیث اور صحیح بخاری کا درس لیا اور سند حاصل کی۔ پھر وہ اپنے گاؤں کُٹی بلوچاں تشریف لائے اور بڑےبھائی میاں محمد ابراہیم خاں(متوفی 1954؁ء) کے تعاون سے مسلک اہل حدیث کی اشاعت میں سرگرم ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گاؤں کے تمام لوگوں نے یہ مسلک اختیار کر لیا۔اس وقت علمائے احناف دیہات میں جمعہ پڑھنے کی شدید مخالفت کررہے تھے۔اس فریضے کی مخالفت میں انھوں نےکتابیں بھی لکھیں اور تقریروں کا سلسلہ بھی زوروں پر رہا۔اس شدیدمخالفت کے باوجود مولانا محمد اسماعیل خاں بلوچ کی تبلیغ سے اس نواح کے گیارہ دیہات میں باقاعدہ نماز جمعہ پڑھی جانے لگی۔ اس بلوچ عالم دین کا انتقال 1968؁ء میں ہوا۔ مولانا محمد اسماعیل خاں بلوچ کے فرزند گرامی مولانا محمد حسین خاں تھے جو حضرت مولانا شرف الدین محدث دہلوی کے شاگرد اور سند یافتہ عالم دین تھے۔ انھوں نے بھی مسلک اہلحدیث کی بڑی تبلیغ کی۔ ان کا انتقال 24۔اپریل 1992؁ءکو ہوا۔ ہمارے فاضل دوست مفتی عبید اللہ عفیف انہی مولانا محمد اسماعیل خاں بلوچ کے پوتے اور مولانا محمد
Flag Counter