Maktaba Wahhabi

617 - 665
ڈاکٹر عبدالعلیم بستوی ہندوستان کے صوبہ یوپی کے مختلف بلاد وقصبات اور دیہات میں بے شمار علمائے دین پیدا ہوئے۔جنھوں نے تدریس میدان میں بھی بے پناہ خدمات انجام دیں، تصنیفی اعتبار سےبھی بہت آگے بڑھےاورتبلیغ وتقریر کے ذریعے بھی انھوں نے بے حدکارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ان لائق احترام حضرات میں ایک بزرگ مولانا عبدالعظیم بستوی تھے جو ضلع بستی کے ایک گاؤں”اکرہرا“ کے رہنے والے تھے، اوراپنے ضلعے کی بنا پر”بستوی“ کی نسبت سے مشہور ہوئے۔انھوں نے دہلی میں حضرت مولانا عبدالوہاب دہلوی سے تعلیم حاصل کی اور اپنےعلاقےکے ممتازعلماء میں گردانےگئے۔دہلی میں طالب علمی کےدورمیں ان کی ملاقات مولانامحمد جوناگڑھی سےہوئی۔یہ بھی مولانا عبدالوہاب صاحب کے شاگرد تھے اورتحریروتقریر میں بڑی شہرت رکھتے تھے۔مولانا عبدالعظیم بستوی فارغ التحصیل ہوئے تو مولانا محمد جونا گڑھی نے خواہش ظاہر کی کہ وہ مستقل طور پر دہلی میں سکونت اختیار کرلیں اور توحید وسنت کی دعوت کاکام ان کے ساتھ مل کر کریں۔لیکن مولاناعبدالعظیم بستوی نےاپنے علاقے کے لوگوں کی اصلاح کو اصل اہمیت دی اور اپنے گاؤں چلے گئے۔گاؤں میں امامت وخطابت کافریضہ انجام دینے لگے اورعلاقے میں وعظ وتبلیغ کے دورں کاسلسلہ شروع کیا۔ اس طرح ان کے گاؤں کے لوگ بھی ان کے مواعظ سے مستفید ہوئے اوراردگرد کے لوگوں کو بھی ان کی تبلیغی مساعی سے بہت فائدہ پہنچا۔ان کے دلوں میں جذبہ توحید راسخ ہوا اور وہ کتاب وسنت کی ہموار اورصاف ستھری راہوں پر قدم فرساہوئے۔مولانا عبدالعظیم بستوی نے 29۔اکتوبر 1977ء کو اپنے گاؤں میں وفات پائی۔رحمۃ اللہ علیہ تعالیٰ۔ مولانا عبدالعظیم بستوی کی نرینہ اولاد چار بیٹے تھے اور چاروں علم کی دولت سے مالا مال ہوئے۔ان کے نام علی الترتیب یہ ہیں: عبدالودود، عبدالصبور، عبدالنور اور عبدالعلیم۔۔۔! مولانا عبدالودود اور مولانا عبدالصبور نےدارالحدیث رحمانیہ(دہلی) سے تعلیم حاصل کی اوراپنے اپنے اندازمیں خدمت دین کو اپنا مشغلہ بنایا۔ مولانا عبدالنور نےدارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخلہ لیا اوروہیں سے سندفراغ حاصل کی۔پھر مصر جاکر جامعہ ازہر سے عربی ادب میں ایم اے کیا۔دارلعلوم ندوۃ العلماء اور جامعہ ازہر کے تعلیم یافتہ ہونے کی بنا پرانھیں ندوی اور ازہری کہاجانے لگا۔اپنی قابلیت کی بنا پر وہ دارالعلوم ندوۃ
Flag Counter