Maktaba Wahhabi

669 - 665
پروفیسر محمد اکرم نسیم ججہ ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرور میں جاٹوں کی ججہ برادری کے بارہ گاؤں قریب قریب واقع ہیں۔ چند سال پیشتر ان بارہ دیہات میں ایک شخص بھی اہل حدیث نہیں تھا۔ سب لوگ احناف کے بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ ان بارہ دیہات میں ایک گاؤں کا نام ”موہر یکے ججہ“ ہے۔ پروفیسر محمد اکرم نسیم ججہ اسی گاؤں میں 2۔جنوری 1945 ؁ء کو پیدا ہوئے۔ اس گاؤں کی مسجد کے امام اہلحدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے، لیکن اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد محمد اکرم ججہ نے ان سے تفسیر ابن کثیر کے چند پارے پڑھے اور مشکوۃ شریف پڑھی تو مسلک اہل حدیث اختیار کر لیا اور اس کی اشاعت کے لیے کمربستہ ہوگئے۔ اس ماحول میں یہ بڑی ہمت کاکام تھا اور توحید و سنت کی دعوت کا جو رد عمل اس فضا میں ہوسکتا تھا ہوا لیکن برادری کے چند نوجوانوں نے ان کی تائید کی اور وہ ان کے ساتھ ہوگئے۔اب مباحثوں اور مناظروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔پہلا مناظرہ تراویح کے موضوع پر ہوا۔ محمد اکرم ججہ اور ان کے رفقاء نے لاہور آکر مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی کی خدمت میں حاضری دی اور وہ انھیں مناظرے کے لیے گاؤں موہر یکےججہ لے گئے۔ حافظ صاحب کے معاون مولانا محمد صدیق (سرگودھا) تھے اور صدر مولانا محمد رفیق پسروری کو بنایا گیا تھا۔ بریلوی حضرات کی طرف سے مولانا مراتب علی شاہ مناظر تھے۔ کھلی فضا میں ہزاروں لوگوں نے مناظرہ سنا جو انتہائی پر امن ماحول میں ہوا، موہر یکے ججہ کے قریب ایک گاؤں کا نام خاں ججہ ہے۔وہاں کے رہنے والے ایک صاحب محمد بشیر ججہ ایڈووکیٹ ہیں جن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ زیر بحث مسئلہ تراویح کے متعلق مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی نے مضبوط دلائل کی روشنی میں ثابت کردیا ہے کہ تراویح کی نماز بیس رکعت نہیں، آٹھ رکعت ہے۔ اس مناظرہ کے نتیجے میں موہر یکے ججہ کے متعدد افراد نے مسلک اہل حدیث قبول کیا۔ اب اس برادری اور گاؤں کے بہت سے لوگ اس مسلک سے وابستہ ہیں۔ اس کے بعد محمد اکرم نسیم ججہ کے تعلیمی حالات اور ملازمت کے سلسلے کی چند باتیں۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد وہ ملیر یا ریڈی کیشن کے محکمے میں بطور سپروائزر ملازم ہوئے۔ یہ محکمہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے تحت قائم ہوا تھا، جسے بعد میں محکمہ صحت میں ضم کردیا گیا۔ محمد اکرم ججہ 1962؁ءتک اس محکمے میں کام کرتے رہے۔ پھر یہ ملازمت چھوڑدی۔
Flag Counter