Maktaba Wahhabi

124 - 406
بہت کم لوگ ہی پہنچ پائیں گے تو اس کی وجہ مناسبت یہ ہے کہ بغیر چرواہے کے اونٹ بہت کم ہوتے ہیں ۔‘‘[1] آخری بات آخر میں ہم ایک بات کہتے ہیں : نواصب جو کہ اہل بیت رضی اللہ عنہم سے بغض رکھتے ہیں اگر ان میں سے کوئی یہ بات کہے کہ : بیشک جو لوگ مرتد ہوگئے تھے اور جنہیں حوض سے دور کر دیا جائے گا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما ہیں ۔ تو تم لوگ ان پر رد کیسے کرو گے؟ یقینی بات ہے کہ یہی کہو گے کہ اس سے مراد یہ حضرات نہیں ہیں اس لیے کہ ان کے فضائل میں احادیث وارد ہوئی ہیں ۔ ایسے ہی ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جناب ابوبکر و عمر اور عثمان اور ابو عبیدہ ان کے فضائل میں احادیث وارد ہوئی ہیں ۔ لہٰذا اب آپ کے پاس کیا حجت رہ جاتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تو ان سے خارج کردو اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اوردیگر صحابہ کو ان میں داخل کردو، آخر اس کی بنیاد کیا ہے؟ پس خلاصہ کلام یہ ہے کہ احادیث حوض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شامل نہیں ہیں ۔ ۳....جمعرات کی بدبختی شبہ :.... صحیحین میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو گھر میں بہت سارے افراد موجود تھے‘ ان میں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آؤ میں تمہارے لئے ایک وصیت لکھ دوں تاکہ تم گمراہ نہ ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت تکلیف ہے وصیت لکھنے کی ضرورت نہیں ۔ تمہارے پاس قرآن ہے اور ہمارے لئے کتاب اللہ ہی کافی ہے۔ اس کے بعد گھر میں موجود لوگ جھگڑنے لگے کوئی کہتا تھا: ہاں لکھوا لو اچھا ہے تم گمراہ نہ ہو گے۔کوئی عمر رضی اللہ عنہ والی بات ہی کہتا۔ کسی نے کچھ باتیں بہت ہی زیادہ ہونے لگیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سے چلے جاؤ۔‘‘ عبیداللہ بن عبداللہ زہری سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کے بعد افسوس سے کہا :’’یہ کیسی مصیبت ہے جو لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اور آپ کی وصیت لکھوانے کے درمیان حائل کردی۔‘‘ [2]
Flag Counter