Maktaba Wahhabi

168 - 406
سلامتی شرط نہیں ہے حتیٰ کہ کبیرہ گناہ سے محفوظ ہونا بھی شرط نہیں ۔ یہ جائز ہے کہ کسی آدمی سے صغیرہ یا کبیرہ گناہ ہو جائیں پھر وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان سے توبہ کر لے اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جنتی ہونے کی گواہی دی ہے اور اگر ہمیں یہ نہ بھی معلوم ہو کہ یہ معتین افراد جنت میں جائیں گے، تب بھی ہمارے لیے جائز نہیں تھا کہ ان کے استحقاق جنت میں چند ایسی باتوں کی وجہ سے قدح کریں جن کے بارے میں ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ان کی وجہ سے جہنم واجب ہو جاتی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تکلیف دی اور ان سے جنگ کی شبہ:.... صحابہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تکلیف دی اور ان سے جنگ کی اور یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے تھے کہ ’’جس نے علی کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی۔‘‘ جواب:....یہ بات جان لیجیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین پیش آنے والا سب سے بڑا اختلاف جو زبان خاص و عام پر ہے، وہ وہ اختلاف ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں پیش آیا۔جب امت دو دھڑوں میں بٹ گئی اور جمل اور صفین کے واقعات پیش آئے۔ اس کا اصل بنیادی سبب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا واقعہ تھا۔ خواہ کوئی منکر اس حقیقت کا کتنی ہی شدت سے انکار کیوں نہ کرے۔ ٭پہلے واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے تو حضرت طلحہ حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم بصرہ کی طرف چل پڑے۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان کے خروج کا علم ہوا تو آپ نے مدینہ میں انہیں روکنے کی کوشش کی، تاکہ مسلمانوں میں تفریق پیدا نہ ہو۔ مگراس میں کامیاب نہ ہوئے۔ پھر آپ نے اپنے بیٹے حضرت حسن اور حضرت عمار رضي الله عنهم کو روانہ کیا تاکہ اہل مدینہ اور اہل کوفہ سے لشکر لے کر آئیں جب یہ لوگ بصرہ پہنچے تو اہل بصرہ اور بیت المال سے اپنی مدد چاہی۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو آپ نے صلح کرنے اور مسلمانوں کی اجتماعیت بحال رکھنے کی کوشش کی، دیگر خیرخواہ بھی اس کام میں لگ گئے۔ لیکن قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ بات پسند نہ آئی اور انہوں نے حضرت علی کی اس پالیسی کے برعکس بروز جمعرات عصر کے بعد ۱۰ جمادی الآخرکو لڑائی کی ٹھان لی۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور ام المومنین رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے اور فرمانے لگے: ’’اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائیں ۔‘‘ انہوں نے کہا:’’ اور آپ کی بھی مغفرت فرمائیں ، میں تو صرف اصلاح کی نیت سے آئی تھی۔‘‘ پھر آپ کو عبداللہ بن خلف کے گھر میں لایا گیا۔ وہاں پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تین بار زیارت کی اور آپ
Flag Counter