Maktaba Wahhabi

176 - 406
امام بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے کہ:’’ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منٰی میں دو رکعت نماز پڑھی، آپ کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسے ہی کیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے ابتدائی دور میں اسی پر قائم رہے۔ پھر آپ نے چار رکعت پڑھنا شروع کر دی۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، زہری نے کہا ہے: ’’ میں نے حضرت عروہ رحمہ اللہ سے پوچھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ سفر میں نماز پوری پڑھتی ہیں ، تو انہوں نے کہا: آپ بھی ایسے ہی تاویل کرتی ہیں جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تاویل کرتے تھے۔‘‘ علمائے کرام کے ردّود ٭اس شبہ میں دو احادیث میں خلط ملط کر دیا گیا اور ان دونوں کو ملا کر ایک کر دیا ہے: ۱۔ پہلی حدیث مہدی بن غیلان نے حضرت انس رحمہ اللہ سے روایت کی ہے، جس میں ہے آپ نے فرمایا: ’’ عہد رسالت مآب کی کوئی بھی چیز اب پہچانی نہیں جا رہی۔ آپ سے پوچھا گیا: کیا نماز بھی؟ تو آپ نے فرمایا:’’ کیا ابھی تم نے وہی کچھ نہیں کیا جو تم نے نماز میں کیا۔‘‘[1] ۲۔ دوسری حدیث عبدالعزیز کے بھائی عثمان بن ابی رواد سے روایت کی گئی ہے، اس میں ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے زہری رحمہ اللہ کو یہ فرمانتے سنا کہ میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا (دمشق میں ) آپ رو رہے تھے میں نے پوچھا: آپ کو کس چیز نے رلا دیا ہے؟ تو فرمایا: جو چیزیں ہم نے پائی تھیں ، ان سے کچھ بھی معلوم نہیں ہو رہا، سوائے اس نماز کے اور یہ نماز بھی ضائع کر دی گئی ہے۔‘‘[2] ٭جہاں تک حضرت انس بن مالک رحمہ اللہ کی پہلی روایت کا تعلق ہے، تو آپ کے یہ فرمانے کا مقصد کچھ اور تھا کہ اَلَیْسَ صَنَعْتُمْ مَا صَنَعْتُمْ فِیْہَا۔ مطلب یہ تھا کہ نماز میں تاخیر کرتے تھے، حتیٰ کہ اس کا وقت نکل جاتا اور یہ واقعہ حجاج بن یوسف کے زمانہ کا ہے، صحابہ کے زمانہ کا نہیں ۔ ٭حضرت انس کی دوسری حدیث جو کہ زہری نے روایت کی ہے، وہ بھی حجاج کے عراق پر عہد امارت کے دور کی بات ہے اور حضرت انس دمشق اس لیے تشریف لائے تھے تاکہ خلیفہ کے پاس حجاج کی شکایت کر سکیں ۔ اس وقت میں خلیفہ ولید بن عبدالملک تھا، حضرت انس کا یہ فرمان کہ: ’’ جو کچھ ہم نے پایا تھا اس میں سے کسی چیز کی پہچان نہیں ہو رہی، سوائے اس نماز کے اور یہ بھی تم نے ضائع کر دی ہے۔ یہ اس کو بھی تم وقت سے تاخیر کر کے پڑھتے ہو۔‘‘
Flag Counter