Maktaba Wahhabi

183 - 406
سے وہ عند اللہ بری ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جومعمولی اختلاف تفسیر یا فہم حدیث میں منقول ہے، اس کی وجہ سے تو علیحدہ فقہی مکاتب، فلسفی مدارس اور علم کلام کے مباحث پیدا نہیں ہوئے۔ بلکہ اس اختلاف کی حقیقت میں دو بنیادیں ہیں : ۱۔ اختلاف تنوع ۲۔ اختلاف تضاد جہاں تک اختلاف تضاد کا تعلق ہے، خواہ وہ تفسیر میں ہو یا فہم حدیث یا احکام میں ، اس کی تعداد بہت کم ہے۔ نیز اس کا تعلق دین کے عام اور مشہور اصولوں سے نہیں ہے۔ بلکہ یہ اختلاف بعض ان دقیق مسائل سے تعلق رکھتا ہے جو اجتہاد میں محل نظر ہیں ۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی تو جان لیجیے کہ یہ تمام بدعتی فرقے اپنی کثرت اور اختلاف مشارب کے باوجود ان میں سے کسی ایک کا بھی تعلق کسی بھی صحابی سے نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ اپنی بدعات میں کسی صحابی کے قول کو بطور دلیل کے پیش کرتے ہیں ۔ اگرچہ بعض فرقے دعوی کی حد تک اپنے آپ کو بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف منسوب کرتے ہیں ، لیکن عند اللہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے موجدین اور مؤسسین وہی بدعات کے سر غنے ہیں ۔ جو یا تو اصل میں کافر تھے، یا پھر ایسے کھلے ہوئے منافق تھے جن کا نفاق امت پر صاف ظاہر تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور نصوص کے مقابلہ میں اجتہاد شبہ:....معترضین کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نصوص کے مقابلہ میں اجتہاد کیا کرتے تھے اورسب سے پہلے اس کا دروازہ کھولنے والے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ ایک تنقید نگار کہتا ہے: ’’ میں اپنی بحث و تحقیق میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ امت اسلامیہ کو توڑ کر رکھ دینے والی مصیبت صریح نصوص کے مقابلہ میں وہ اجتہاد ہے جس کی عادت صحابہ کو پڑ چکی تھی۔اس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کو پامال کیا اور سنت نبوی کو مٹا کر رکھ دیا۔ صحابہ کے بعد علمائے امت اور ائمہ صحابہ کے اجتہادات پر قیاس کرنے لگے۔اس دوران بعض دفعہ اس وقت نصوص نبوت کو بھی پس پشت ڈال دیتے جب وہ افعال صحابہ سے متعارض ہوتیں ۔اس دروازے کے کواڑ کھولنے والی سب سے پہلی شخصیت دوسرے خلیفہ حضرت عمر بن خطاب ہیں ، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قرآنی نصوص کے مقابلہ میں اپنی آراء سے کام لیا۔مؤلفۃ القلوب کا جو حصہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ میں فرض کیا تھا، اسے ختم کرڈالا، اور کہنے لگے: ہمیں اب تمہاری ضرورت نہیں ہے ۔‘‘
Flag Counter