Maktaba Wahhabi

200 - 406
ایسا ہی کلام الدنبلی نے اپنی شرح میں بھی نقل کیا ہے، وہ کہتا ہے: ’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس عہد کو نبھایا کرتے تھے جو انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کیا تھا ۔‘‘ اور آگے چل کر لکھا ہے: ’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فدک سے غلہ لے کر اہل بیت کو دیا کرتے تھے جو کہ ان کی ضرورت کو پوری کر دیتا تھا اور باقی تقسیم کر دیا کرتے تھے پھر ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ایسے ہی کیا کرتے تھے۔‘‘[1] ٭اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت تقسیم ہوتی تو اس کے حق دار تین قسم کے لوگ تھے: (۱) ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم ، (۲) دختر رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، (۳) عم رسول جناب حضرت عباس رضی اللہ عنہ ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو آدھی میرات ملتی، کیونکہ آپ خاتون وارث بنتیں اور ازواج مطہرات آٹھویں حصہ میں شریک بنتیں ۔ کیونکہ وارث کی فرع حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاموجود تھیں اور باقی مال حضرت عباس رضی اللہ عنہ بطور عصبہ لے جاتے۔ تو پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور ازواج مطہرات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت کا مطالبہ کیوں نہیں کیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت کی روایات پر تنقید حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حق میں پائے جانے والے شبہات میں سے ایک حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کی امامت کی روایات پر تنقید ہے۔ اس شبہ پر علمائے کرام کا ردّ ۱۔ احادیث ابو موسي اشعري رضی اللّٰہ عنہ : صحیح البخاری: اسحق بن نصر عن حسین عن زائدۃ عن عبدالملک بن عمیر، عن ابی بردۃ، عن ابی موسی۔ مسلم: عن ابی بکر بن ابی شیبۃ، عن حسین بن علی عن زائدۃ عن عبدالملک بن عمیر، عن ابی بردۃ، عن ابی موسی۔.... الخ۔ الامام أحمد : عبداللّٰہ عن أبیہ عن حسین بن علی عن زائدۃ عن عبدالملک بن عمیر، عن ابی بردۃ، عن ابی موسی۔ ان اسانید پر مندرجہ ذیل تنقید کی ہے: یہ روایت مرسل ہے، اس پر ابن حجر سے نص موجود ہے۔ کہا ہے:
Flag Counter