Maktaba Wahhabi

218 - 406
میں تدلیس ہرگز نہیں پائی جاتی۔ یہ اسناد چڑھتے سورج کی طرح واضح ہیں ۔ لیکن ان لوگوں نے علمی امانت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ ثانیاً: ....روایات عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ امام احمد: عن عبد اللّٰہ ،عن ابیہ، عن شبابۃ، عن شعبۃ، عن سعد بن ابراہیم، عن عروۃ بن زبیر، عن عائشۃ۔ صحیح البخاری: عن زکریا بن یحیی، عن ابن ضمیر، عن ہشام بن عروۃ، عن ابیہ، عن عائشۃ۔ صحیح مسلم: عن ابی بکر بن ابی شیبۃ، و ابی کریب، قالا عن ابن نمیر، عن ہشام، و عن ابن نمیر، و الفاظہم متقاربۃ عن ابی ہشام، عن ابیہ، عن عائشۃ۔ ابن ماجۃ: عن ابن ابی شیبۃ، عن عبداللّٰہ بن نمیر، عن ہشام بن عروۃ، عن ابیہ، عن عائشۃ۔ صحیح البخاری:عن عبداللّٰه بن یوسف عن مالک عن ہشام بن عروۃ عن ابیہ عن عائشۃ۔ الترمذی:عن اسحق بن موسیٰ الانصاری، عن معن، عن مالک، عن ہشام بن عروۃ، عن ابیہ، عن عائشۃ۔ موطا امام مالک:عن مالک، عن ہشام بن عروۃ، عن ابیہ، عن عائشۃ۔ وفی الموطأ: عن عروۃ بن الزبیر مرسلاً و لکنہا موصولۃ ببقیۃ الطرق۔ ان حضرات پر تنقید نگار نے ہجوم ان الفاظ میں شروع کیا ہے: عروہ بن زبیر کی پیدائش حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہوئی۔ پس یہ حدیث مرسل ہے۔ خصوصاً جب کہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتا ہے۔ میں کہتا ہوں : ہمارے سامنے کئی ایک روایات ہیں سب کی سند موصول ہے۔ مرسل نہیں ۔ حتیٰ کہ موطا کی روایات کو بھی باقی روایات سے ملایا جائے گااس لیے کہ بخاری اور ترمذی کی روایات موطا امام مالک کی سند سے ہی منقول ہیں ۔ ان کے مابین اسناد متصل ہیں ۔ تو اس سے واضح ہو گیا کہ امام مالک رحمہ اللہ کی سند حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تک موصول ہے۔ لیکن جس سے اللہ تعالیٰ نے بصیرت چھین لی ہو، وہ کچھ بھی نہیں دیکھ سکتا۔ اس پر مزید یہ کہ بخاری اور مسلم رحمہ اللہ میں کوئی ایک حدیث بھی ایسی نہیں جو عروہ رحمہ اللہ براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوں ۔ بلکہ ان میں واسطہ کی صراحت ہے۔ بعض میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا
Flag Counter