Maktaba Wahhabi

222 - 406
وہ صالح الحدیث ہے۔ میں نے کہا: کیا اس کی حدیث کو حجت بنایا جا سکتا ہے؟ تو فرمایا: اس کی احادیث لکھی جائیں ۔‘‘[1] اس تنقید نگار کو ان نصوص سے کہاں کا واسطہ؟ مزید برآں یہ کہ ابو حاتم کی جرح موسیٰ بن ابی عائشہ کی عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت میں اس حدیث میں اضطراب کی وجہ سے تھی اور اس طعنہ گر نے یہ سمجھا کہ اس واقعہ کو بیان کرنے میں احادیث میں تعارض اور ٹکراؤہے۔ پھر پورے اعتماد سے کہتا ہے: زہری کے بارے میں آپ کو پہلے معلوم ہو چکا ہے۔ اس پر تو مزید کسی رد کی آپ کو کوئی ضرورت نہیں ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ان پانچوں اسانید میں کوئی طعن نہیں انھیں بھی صحیح احادیث کے زمرہ میں شامل کیا جاتا ہے۔ و للّٰہ الحمد۔ رابعاً: ....روایات مسروق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نسائی:عن محمد بن المثنی، عن بکر بن عیسی صاحب البصری عن شعبۃ، عن نعیم بن ابی ہند عن ابی وائل، عن مسروق، عن عائشۃ۔ .... الخ احمد:عن عبداللّٰہ، عن ابیہ، عن بکر بن عیسی عن شعبۃ بن الحجاج، عن نعیم بن ابی ہند عن ابی وائل،عن مسروق، عن عائشۃ۔ .... الخ احمد:عن عبداللّٰہ عن ابیہ عن شبابۃ بن سوار ؛ عن شعبۃ عن نعیم بن ابی ہند ؛ عن ابی وائل عن مسروق عن عائشۃ۔ .... الخ تنقید نگار حضرت ابو وائل رحمہ اللہ کی سند پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے: ابووائل اس کا نام شقیق بن سلمہ ہے وہ مسروق سے روایت کرتا ہے عاصم بن بہدلہ کہتا ہے ابو وائل سے پوچھا گیا کہ تمہارے نزدیک زیادہ محبوب کون ہے عثمان یا علی؟ تو کہنے لگا: مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ زیادہ محبوب تھے، مگر پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ محبوب ہو گئے۔ تنقید نگار کہتا ہے کہ تمام اہل سنت و الجماعت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے ہیں اس لیے کہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ۔ پھر اپنی طعنہ زنی کو جاری رکھتے ہوئے نعیم بن ابی ہند کی وجہ سے اسناد پر طعنہ زنی کی ہے۔ ہم اس سے قبل بتا چکے ہیں کہ نعیم بن ابی ہند ثقہ راوی ہے۔ اس پر ناصبی ہونے کا الزام تھا۔ ہم نے اس کے ساتھ ساتھ کئی ایک شیعہ راویوں کا تعارف بھی کرایا تھا، جیسا کہ حسن بن محمد بن سماعۃ، احمد بن الحسن بن اسماعیل بن شعیب بن میثم التمار، صفوان بن یحییٰ ، ادریس بن الفضل، سلیمان الخولانی، اسحق بن جریربجلی الکوفی،
Flag Counter