Maktaba Wahhabi

223 - 406
جعفر بن محمد بن سماعۃ، و حسین بن ابی سعید، ہشام بن حیان المکاری، حسین بن المختار القلانسی اور دیگر بہت سارے ایسے راوی ہیں جنہوں نے علی الرضا سے دشمنی میں ناصبیت کا مظاہرہ کیا اور ظلم و جبر اور جھوٹ سے امام کاظم کے مال کو اپنے لیے حلال کر لیا مگر اس کے باوجود یہ لوگ اجلہ ثقہ راوی ہیں ، اور ان کی روایات ان کے ہاں معتبر مانی جاتی ہیں ۔ پھر اس نے شبابہ بن سوار پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مرجیٔ تھا اور عقیدہ ارجاء کی دعوت دیتا تھا۔ یہ اس کے بارے میں علماء جرح و تعدیل کا قول ہے۔ جب کہ اس کی روایات ثبت ہوتی ہیں ۔ لیکن انہیں علی الاطلاق قبول نہیں کیا جاتا۔ یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کا قول ہے کہ شبابہ رحمہ اللہ شعبہ سے روایت کرنے میں ثقہ ہے۔ جیسا کہ اس تنقید نگار نے بھی کہا ہے کہ امام یحییٰ بن معین امام بخاری و مسلم رحمہم اللہ کے استاذ اور جرح و تعدیل کے امام ہیں اور ان کے علم حدیث کے سب سے بڑا عالم ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔ ان کی وفات ۳۰۲ ہجری میں ہوئی۔[1] خامساً: ....روایت حمزۃ بن عبداللہ بن عمر صحیح البخاری:عن أحمد بن یونس،عن زائدۃ، عن موسیٰ بن ابی عائشۃ، عن عبیداللّٰہ بن عبداللّٰه بن عتبۃ ، عن عائشۃ۔ .... الخ اس سے اس تنقید نگار نے صَرفِ نظر کیا ہے کیونکہ اسے تنقید کے لیے کوئی بات نہیں ملی۔[الرد علی الجانی علی المیلانی۔] حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اپنے خلاف گواہی ایک معترض کہتا ہے: جیسا کہ تاریخ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک پرندہ درخت پر دیکھا تو کہا اے پرندے! تجھے مبارک ہو، پھل کھاتے ہو اور درختوں پر پڑتے ہو، نہ ہی تیرا کوئی حساب ہو گا نہ ہی عقاب۔ مجھے یہ بات پسند تھی کہ میں راستہ کے ایک کنارے پر ایک درخت ہوتا ، تو میرے پاس سے گزرنے والا اونٹ مجھے کھا لیتا اور مینگنی کی صورت میں نکال دیتا اور میں بشر نہ ہوتا .... ‘‘ ایک بار یہ بھی کہا ہے کہ اے کاش! مجھے میری ماں جنم نہ دیتی۔ ہائے میرے لیے افسوس کہ میں ایک اینٹ ہوتا .... ‘‘
Flag Counter