Maktaba Wahhabi

270 - 406
پوری ہو گئی تو تب اس کے پاس چلے گئے۔‘‘[1] طبری نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی اس شادی کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: حضرت خالد نے ام تمیم بنت منہال سے شادی کی اور اسے پاک ہونے کے لیے چھوڑ دیا۔‘‘[2] الکامل میں ہے:’’ حضرت خالد نے ام تمیم سے شادی کی جو کہ مالک کی بیوی تھی۔‘‘[3] ٭ ابن خلکان جس کا کلام تنقید نگار نے بطور دلیل کے پیش کیا ہے وہ کہتا ہے:’’ اور حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے اس کی بیوی کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ:’’ اسے مال غنیمت میں سے خرید لیا تھا تاکہ اس کے ساتھ شادی کر سکیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب اس کی عدت تین ماہ پوری ہو گئی تو آپ نے اسے شادی کا پیغام بھیجا جو اس نے قبول کر لیا۔‘‘[4] حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے تکرار: شبہ:.... حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہنا کہ ہمارے نانا کے منبر سے اتر جائیے۔ ٭کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر چڑھے۔ تو دونوں نواسوں نے ان سے کہا: ’’ہمارے نانا کے منبر سے اتر جائیے‘‘ تو اس سے معلوم ہوا کہ آپ میں امامت کی لیاقت و اہلیت نہیں تھی۔ ٭ اگر اس بات کو درست تسلیم کر بھی لیا جائے، تو بھی اس وقت یہ دونوں صاحب زادے چھوٹے تھے۔ کیونکہ حضرت حسن کی پیدائش سنہ تین ہجری ماہ رمضان میں ہوئی ہے ۔اور حضرت حسین کی پیدائش سنہ چار ہجری ماہ شعبان میں ہوئی ہے اور خلافت کا معاملہ سنہ گیارہ ہجری کے شروع کا ہے۔ اگر ان کے افعال پر احکام مرتب ہوتے ہوں اور ان افعال کو معتبر سمجھا جاتا ہو تو اس سے تقیہ ترک کرنا لازم آتا ہے جو کہ واجب کا مقام رکھتا ہے۔ وگرنہ اس میں کوئی نقص اور عیب والی بات نہیں ۔ بچوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جب وہ کسی کو اپنی محبوب شخصیت کے مقام پر دیکھتے ہیں تو اس کے ساتھ جھگڑا کرتے ہیں ۔ بھلے اس کا وہاں پر وجود اس شخصیت کی رضامندی سے ہو اور اس سے کہتے ہیں کہ اس جگہ سے اٹھ جاؤ۔ مگر عقلمند لوگ ایسی باتوں پر توجہ نہیں دیتے ۔اور اگرچہ یہ حضرات دوسرے بچوں سے علیحدہ اور جداگانہ مقام رکھتے ہیں ، لیکن بچوں کے احکام بھی تو جدا ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدا کے لیے کمال عقل کی
Flag Counter