Maktaba Wahhabi

272 - 406
زمین والوں میں سے۔ اہل آسمان میں سے میرے وزیر جبرائیل اور میکائیل ہیں ۔ جبکہ زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے عہد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ولایت تفویض نہ کرنے کا شبہ: ٭کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ساری زندگی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کوئی ولایت تفویض نہیں کی، بلکہ آپ پر کبھی تو حضرت عمرو بن العاص کو امیر بنایا اور کبھی حضرت اسامہ کو اور جب آپ سورۂ براء ت لے کر چلے تو تین دن کے بعد وحی الٰہی کی روشنی میں آپ کو واپس بلا لیا۔ تو پھر کوئی عاقل یہ بات کیسے مان لیتا ہے کہ ایسے آدمی کی ولایت پر کوئی راضی ہو جس کے ذریعہ سے دس آیات پہنچانے پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راضی نہیں ہوئے تھے؟ ٭یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے، مفسرین، اہل مغازی، سیرت نگاروں ، محدثین اور فقہاء کے ہاں اس کا جھوٹ ہونا تواتر کے ساتھ معلوم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سن نو ہجری میں امیر حج بنایا تھا۔ مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ادا کیا جانے والا یہ پہلا حج تھا۔ اس سے پہلا حج سنہ آٹھ ہجری میں ہوا تھا، جس میں امیر حج حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ گورنر مکہ تھے۔ مکہ جب آٹھ ہجری میں فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتاب بن اسید بن ابی العاص کو مکہ کا گورنر بنایا۔ پھر سنہ نو ہجری کے حج میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنایا۔ یہ غزوہ تبوک سے واپسی کے بعد کا واقعہ ہے۔ اس موقعہ پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ حج کے ایام میں یہ اعلان کر دیں کہ آج کے بعد کوئی مشرک بیت اللہ کا حج نہ کرے گا اور نہ کوئی برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی ولایت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی دوسرے کو تفویض نہیں فرمائی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی یہ امارت آپ کے خصائص میں سے شمار ہوتی ہے۔ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج پر کسی کو ایسے امیر نہیں بنایا جیسے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر بنایا تھا اور جیسے اپنے بعد نمازوں کی امامت کے لیے کسی کو ایسے امیر نہیں بنایا، جیسے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر بنایا تھا۔ اس حج میں حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کی رعایا میں سے تھے۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو آپ نے پوچھا: امیر بن کر آئے ہو یا مامور بن کر؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ نہیں بلکہ مامور بن کر آیا ہوں ۔‘‘[2]
Flag Counter