Maktaba Wahhabi

290 - 406
دروازے پر کھڑی ہوگئیں ، اور کہنے لگیں : اے ابوبکر! تم نے کتنا ہی جلدی اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر پر دھاوا بول دیا.... الخ یہ اور اس طرح کی دیگرکئی روایات جنہیں شرح میں پیش کیا گیا ہے، باطل ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زبردستی بیعت : ٭ابن ابی الحدید نے کہا ہے: جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیعت نہ کرنے کا تعلق ہے، حتی کہ آپ کو گھر سے نکالنے کا ذکر کیا ہے، ہم نے اس باب میں جو ہری کا کلام ذکر کر دیاہے۔ اس کا شمار محدثین اور ثقہ اور مامون راویوں میں سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ واقعہ اسی طرح اتنے زیادہ لوگوں نے ذکر کیا ہے کہ ان کی تعداد شمار سے باہر ہے۔ جواب:.... ابن ابی الحدید کا کلام اپنے ہمنواؤں پر حجت ہو سکتا ہے، ہم پر نہیں ۔ ایک شیعہ عالم الخوانساری نے اس کا تعارف کرواتے ہوئے کہا ہے: اس کا نام عزالدین عبدالحمید بن ابی الحسن بن ابی الحدید المداینی ہے، جس کی مشہور کتاب شرح نہج البلاغۃ ہے، اس کا شمار اکابر فضلاء متبعین میں ہوتا ہے، وہ ان بڑے متبحر نبلاء میں سے تھا جو اہل بیت کی عصمت وطہارت کے موالین میں سے ہیں .... اس کی دینی منزلت اورامیر المؤمنین کی محبت میں غلو کیلئے اتنی ہی دلیل کافی ہے کہ اس نے شریف الجامع کی ایک نفیس اور نادر شرح لکھی ہے، جو دوسری کتب پر حاوی ہے، اس کی پیدائش یکم ذوالحجہ (۵۸۶) ہجری میں ہوئی۔ شرح نہج البلاغۃ کا شمار اس کی تصانیف میں ہوتا ہے، جو کئی جلدوں میں ہے ۔ جیسے اس نے وزیر مؤیدالدین محمد بن علقمی کے کتب خانہ کے لیے تحریر کیا تھا۔ جب اس کتاب سے فراغت ہوئی تو اپنے بھائی موفق الدین ابو المعالی کے ہاتھ وزیر کو بھیجی۔ تو اس نے جواب میں ایک لاکھ دینار ایک خوبصورت خلعت اور ایک گھوڑا تحفہ میں بھیجے۔‘‘[1] ٭مسلم بن قتیبہ بن عمر و باہلی متوفی ۲۷۶ ھ کی روایت۔ یہ اپنی کتاب الامامۃ والسیاسۃ، میں کہتا ہے: ’’بے شک ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چندان لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس پایا جو آپ کی بیعت سے پیچھے رہ گئے تھے۔آپ نے ان کی طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ آپ وہاں گئے،اورانھیں آواز دی۔وہ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے باہر آنے سے انکار کر دیا، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جلتی ہوئی لکڑیاں منگائیں ۔ او رکہا: ’’ اس ذات کی قسم! جن کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے، تم ضرور بالضرور نکلوگے، ورنہ میں اس گھر
Flag Counter