Maktaba Wahhabi

296 - 406
بے شک میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ مگر مجھے کوئی ایسی چیز یاد نہیں آرہی ۔‘‘[1] جب حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر آپ چاہیں تو میں یہ واقعہ بیان کروں ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: ’’ہم آپ کو اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف تم پھرے ہو، اور ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہو سکتے جو کچھ تم بیان کرتے ہو۔‘‘ اس کا معنی یہ ہے کہ: میرے یاد نہ کر سکنے کی وجہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ معاملہ نفس امر میں حق نہ ہو۔ میں تمہیں اس کے بیان کرنے سے منع نہیں کرتا۔ (لیکن اس کی ذمہ داری بھی نہیں اٹھاتا) اس سارے معاملہ میں بات اتنی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ واقعہ یاد نہیں رہا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ معصوم نہیں ہیں کہ اس چیز کو عیب سمجھا جائے ۔ ٭معترض کا یہ کہنا کہ آپ کا اس آیت تیمم سے متعلق علم کتاب اللہ کہاں گیا، اور سنت نبی کا علم کہاں گیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو تیمم کی تعلیم ایسے دیتے تھے، جیسے وضو کی تعلیم۔‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کو آیت قرآنی کا بھی علم تھا، او رسنت نبوی کا بھی ۔مگر مشکل یہ تھی کہ کیا اس آیت قرآنی کا حکم جنبی کو بھی شامل ہے یا نہیں ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا﴾ [النساء: ۴۳] ’’ اور اگر تم بیمار ہو، یا سفر پر، یا تم میں کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو، یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو، پھر کوئی پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی کا قصد کرو۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ جنبی اس آیت میں داخل نہیں ۔ آپ آیت میں مذکور ملامسہ کو صرف لمس (یعنی ہاتھ سے چھونے) پر محمول کرتے تھے، جماع پر نہیں ۔ اسی وجہ سے آپ کی رائے یہ تھی کہ جو کوئی عورت کو ہاتھ لگائے اس کے لیے وضو کر نا واجب ہو جاتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا متعہ کو حرام کرنا: کہتے ہیں :.... عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ صریح نصوص کتاب اور سنن نبو یہ کے مقابلہ میں اجتہاد اور تأویل کرتے تھے۔ بلکہ قرآن حکیم کی صریح نصوص کے مقابلہ میں اپنی رائے سے فیصلہ کرتے تھے۔ جیسا کہ آپ کا یہ قول: ’’دومتعہ عہد نبوی میں تھے، میں ان سے منع کرتا ہوں ، اور ایسا کرنے والے کو سزا دوں گا۔‘‘
Flag Counter