Maktaba Wahhabi

329 - 406
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے متعلق شبہات جنگ جمل اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا: ایک مؤلف کہتا ہے: ہم جنگ جمل کے بارے میں سوال کرتے ہیں جس کی آگ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھڑکائی۔ اس وقت اس لشکر کی قیادت وہی کر رہی تھیں ۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہاگھر سے کیسے نکل سکتی ہیں ، جبکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں گھروں میں استقرار کے ساتھ رہنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: ﴿ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى ﴾ [الاحزاب: ۳۳] ’’اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کے زینت ظاہر کرنے کی طرح زینت ظاہر نہ کرو۔‘‘ ہمارا سوال یہ ہے کہ ام المؤمنین نے کیسے امیر المؤمنین خلیفہ مسلمین سے قتال کو جائز سمجھا، جبکہ آپ ہر مؤمن مرد اور عورت کے ولی ہیں ؟ جواب:.... یہ کہنا کہ جنگ جمل کی آگ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے بھڑکائی، یہ کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ اس لیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جنگ وقتال کے لیے نکلی ہی نہیں تھیں ۔ بلکہ مسلمانوں کے مابین اصلاح کی غرض سے نکلی تھیں ۔ آپ کا خیال یہ تھا کہ آپ کے نکلنے میں مصلحت ہے۔ لیکن پھر ظاہر ہوا کہ آپ کا نہ نکلنا بہتر تھا۔ آپ کو اس پر بہت ندامت بھی ہوئی، اور یہ ثابت ہے کہ آپ فرمایا کرتی تھیں :’’ مجھے یہ بات پسند تھی کہ میں ایک ہری ٹہنی ہوتی، مگر اس سفر پر نہ نکلتی۔‘‘[1] فرض کریں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما سے مل کر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑی تھیں ، تو یہ جنگ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں داخل ہے: ﴿ وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللّٰهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ () إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴾ [ الحجرات: ۹۔ ۱۰]
Flag Counter