Maktaba Wahhabi

337 - 406
گر گیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی وہیں پر رک گئے ہار تلاش کرنے لگے حتیٰ کہ صبح ہوگئی اور لوگوں کے پاس پانی نہیں تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿ فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا﴾ [ النساء: ۴۳] ’’ پھر کوئی پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی کا قصد کرو۔‘‘ اس میں تمام لوگوں کے لیے رخصت تھی، اوریہ آپ کی وجہ سے ہوا ۔ اللہ کی قسم! آپ بابر کت تھیں ۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اے ابن عباس! ان باتوں کو چھوڑو، جانے دو، اللہ کی قسم! میں یہ پسند کرتی ہوں کہ میں نسیاً منیاً ہوگئی ہوتی۔‘‘[1] اور خوارج کے ساتھ مناظرہ میں آپ نے فرمایا: ’’میں کہتا ہوں : تمہارا یہ کہنا کہ آپ (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ ) نے جنگ لڑی، مگرنہ کوئی قیدی بنایا، نہ مال غنیمت حاصل کیا‘‘ تو کیا تم اپنی ماں عائشہ رضی اللہ عنہا کو قیدی بنانے اور ان کے ساتھ ویسا حلال سمجھتے ہو۔ جیسا دوسروں کے ساتھ حلال سمجھتے ہو؟ جب کہ وہ تمہاری ماں ہیں ۔‘‘ اگر تم کہو کہ ہم ویساہی ان کے ساتھ حلال سمجھتے ہیں جیسا کہ دوسریوں کے ساتھ حلال سمجھتے ہیں تو تم کافر ہو جاؤ گے ۔ اگر تم یہ کہو کہ وہ ہماری ماں نہیں ہے تو بھی تم کافر ہوئے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اَلنَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ﴾ [ الاحزاب: ۶] ’’یہ نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھنے والا ہے اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں ۔‘‘ پس تم لوگ دوگمرا ہیوں کے درمیان میں گھوم رہے ہو۔ ہم اس سے مخرج لائے ہیں کیا ہم اس مسئلہ سے نکل گئے، کہنے لگے! ہاں اللہ گواہ ہے۔‘‘ یہ تمام روایات صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں ۔‘‘[2] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ظلم اور قتال: اس مسئلہ کا کچھ حصہ پہلے گزر چکا، حدیث میں ہے:’’ تم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کروگی، اور تم اس پر ظلم کرنے والی ہوگی۔‘‘ یہ روایت معتمدکتب حدیث میں کہیں بھی ثابت نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی معروف سند پائی جاتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نہ ہی کوئی جنگ کی اور نہ ہی جنگ کے لیے نکلیں ۔ آپ کے خروج کا مقصد لوگوں کے درمیان صلح وصفائی کرانا تھا اور آپ کا خیال یہ تھا کہ ان کے نکلنے میں مسلمانوں کے لیے بہت بڑی مصلحت ہے، پھر آپ پر عیاں ہوا کہ آپ کا نہ نکلنا زیادہ بہتر تھا اور جب آپ کو یہ واقعہ یا د آتا تو اتنا روتیں کہ آپ کا
Flag Counter