Maktaba Wahhabi

338 - 406
دوپٹہ تر ہو جاتا۔ یہی حال اکثر ان سابقین اولین کا ہے جنہوں نے ان جنگوں میں حصہ لیا۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ، تمام ان جنگوں پر نادم تھے ۔ یوم جمل میں ان لوگوں کا لڑائی کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن بلا اختیار جنگ کا واقع پیش آگیا۔ اس لیے کہ جب فریقین کے درمیان مراسلت ہوئی، اور صلح پر اتفاق ہو گیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ جیسے ہی حالات درست ہوں گے، وہ قاتلین عثمان کو کیفر کر دار تک پہنچائیں گے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل پر ہرگز راضی نہ تھے اور نہ اس سلسلہ میں کسی کی کوئی مدد کی، آپ قسم اٹھا کر فرمایا کرتے تھے: ’’ اللہ کی قسم! میں نے نہ ہی عثمان کو قتل کیا، اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی سازش کی، آپ اپنی قسم میں سچے اور حق پر تھے۔‘‘ قاتلین عثمان کو یقین ہو چلا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے حضرات کے اتفاق کی صورت میں ہماری خیر نہیں ۔ انہوں نے رات کے اندھیرے میں حضرت طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کے لشکرپر حملہ کر دیا ان حضرات نے سوچا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حملہ کیا ہے، چنانچہ انہوں نے اپنے دفاع میں لڑائی لڑی۔ پس یہ فتنہ بلا اختیار پیش آیا، اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اونٹ پر سوار تھیں ۔ نہ ہی آپ نے جنگ لڑی، اور نہ ہی لڑنے کا حکم دیا۔ یہ بات کئی ایک معتبر مؤرخین نے ذکر کی ہے۔ شبہ ازحدیث’’جب شہر حؤاب کے کتے بھو نکیں گے‘‘ قیس بن ابی حازم سے روایت ہے جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا شہر حؤاب میں اتریں تو کتوں کے بھونکنے کی آواز سنائی دی۔ آپ فرمانے لگیں : میرا خیال ہے کہ مجھے واپس چلے جانا چاہیے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا: ’’ تم میں سے کسی ایک پر حؤاب کے کتے بھونکیں گے۔ تو حضرت زبیر نے آپ سے کہا: آپ واپس جارہی ہیں شاید کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعہ لوگوں میں صلح کرادے۔‘‘[1] اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے فرمایاتھا۔ افسوس کہ تم میں سے کون اونٹ والی ہوگی، جو گھر سے نکلے گی، اور اس پر حؤاب بستی کے کتے بھونکیں گے، اس کے دائیں اوربائیں بہت سارے لوگ قتل ہوں گے، مگر پھر وہ آخر کار بچ جائے گی۔‘‘[2]
Flag Counter