Maktaba Wahhabi

346 - 406
نے بھی آپ کی بیعت کی، جنہوں نے جمعرات کو بیعت نہ کی تھی۔‘‘ اس سے واضح ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت دو دن میں مکمل ہوئی۔ جمعرات اور جمعہ کے دن۔جن لوگوں نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت سعد اور ابن عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر بعض صحابہ بیعت سے پیچھے رہ گئے تھے، تو اس سے مراد پہلے دن کی بیعت ہے۔ اگلے روز ان حضرات نے بھی بیعت کرلی ان میں سے کوئی ایک بھی پیچھے نہیں رہا۔ یہ تمام باتیں ان مؤرخین نے نقل کی ہیں جنہوں نے بیعت کے واقعہ کی تفصیلات نقل کی ہے، اور پھر صحیح ترروایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت ابن عمر بیعت میں شامل ہو گئے تھے۔‘‘ [1] فضیلت صحابہ کرام کے متعلق حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول : شبہ :.... ٭حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’بے شک لوگوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل ترین انسان حضرت ابو بکر پھر عمر اور پھر عثمان پھر اس کے بعد لوگ برابر ہیں .... معتر ضین کہتے ہیں : عبداللہ بن عمر لوگوں کو یہ کہا کرتے تھے کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے افضل حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ .... الخ۔[2] پھر اس کے بعد لوگوں میں کوئی فرق نہیں سبھی برابر ہیں ‘‘ پھر کہتا ہے: ابن عمر کے کلام کا مطلب یہ ہوا کہ امام علی رضی اللہ عنہ ، عام لوگوں کے برابر عام آدمی ہیں ۔ آپ کی کوئی فضیلت نہیں ۔ جواب: ....تمام لوگ یہ جانتے ہیں کہ یہ الزام بہت بڑا بہتان اور جھوٹ ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول یہ مقولہ اگرچہ درست ہے، لیکن اس کے آخر میں یہ جملہ نہیں پایا جاتا کہ اس کے بعد لوگ بر ابر ہیں ۔ یہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قول نہیں ، اور نہ ہی آپ سے ثابت ہے اور نہ ہی اس کی کوئی صحیح سند ہے اور ان معترضین کے اعتقاد کے مطابق اس اثر کا مفہوم بھی غیر مسلم ہے۔ فضیلت کا ترک کرنا ایک دوسری چیز ہے، اور مساوات کا ہونا ایک دوسری چیز ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت یہ ہے کہ آپ ان تین حضرات کے بعد صحابہ کو ایک دوسرے پر فضیلت نہیں دیتے تھے، اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ باقی لوگ فضیلت میں برابر نہیں ، حدیث کی شرح میں علماء نے یہ بات واضح طور پر کہی ہے۔ تاکہ اس شبہ کی جڑیں کاٹی جاسکیں ۔ چنانچہ علامہ خطابی فرماتے ہیں : ’’ اس کی توجیہ یہ ہے کہ۔ واللّٰہ اعلم۔ اس سے مراد بزرگ اور بڑی عمر کے وہ لوگ تھے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی معاملہ پیش آتا تو ان حضرات سے مشورہ کیاجاتا۔
Flag Counter