Maktaba Wahhabi

347 - 406
حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نوخیز نو جوان تھے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جفا یا آپ کے مقام ومرتبہ میں کمی یا آپ کے فضائل کا انکار نہیں ۔ آپ کے فضائل مشہور ہیں ، جن کا نہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کو انکار ہے اور نہ ہی کسی دوسرے صحابی کو۔‘‘[1] ابن حجر نے بعض علماء سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت پر اجماع منعقد ہونے سے پہلے کا ہے: ’’خلفائے ثلاثہ کے بعد آپ کی فضیلت پر تمام امت کا اجماع ہے۔‘‘[2] حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے متعلق شبہات آپ کو سیف اللہ کے لقب سے متعلق اس پر ردگزر چکا۔ شبہ:.... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو بنی جذیمہ سے صدقات کی وصولی کے لیے بھیجا، آپ نے خیانت کی، او رنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے، مسلمانوں کو قتل کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر انکار کرتے ہوئے خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھالیے، حتیٰ کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی، اور آپ نے فرمایا: اے اللہ! میں خالد کے عمل سے بری ہوں ، پھر آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس کی تلافی کے لیے بھیجا، حتیٰ کہ انہوں نے کتے کے برتی کی بھی تلافی کی۔ آپ کو حکم تھا کہ ان لوگوں کو راضی کریں ۔ جواب: ....اس نقل میں جہالت اور تحریف پائی جاتی ہے، سیرت کا علم رکھنے والوں پر یہ بات کسی طرح مخفی نہیں ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد آپ کو بنی جذیمہ کی طرف بھیجا تھا، تاکہ وہ لوگ اسلام قبول کرلیں ۔ مگر وہ اپنے اسلام کا اظہار درست طرح سے نہ کر سکے، او رکہنے لگے! صبانا صبانا، ہم نے دین بدل دیا۔‘‘ تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اس پر راضی نہ ہوئے اور فرمایا: یہ اسلام نہیں ہے، اور ان لوگوں کو قتل کر دیا۔ آپ کے ساتھ موجود اکابر صحابہ نے اس کا رد اور انکار کیا، جیسا کہ حضرت سالم مولی ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ ، اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی تو آپ نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھالیے اور یہ دعا کی: ’’اے اللہ! میں خالد کی اس حرکت سے بری ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ تھا کہ کہیں اللہ تعالیٰ
Flag Counter