Maktaba Wahhabi

361 - 406
اس نے اپنا نسب ابو سفیان کے ساتھ ملایا ہے اور یہ بات ہمارے نزدیک راجح ہے، جیسا کہ ابو عثمان کی سند سے مروی صحیح مسلم کی روایت سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ یہ کہنا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ پر لعنت کی‘‘ دعويٰ:....یہ کہنا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ پر لعنت کی، اور حکم دیا کہ:’’ جب اسے میرے منبر پر دیکھو تو قتل کردو۔‘‘ جواب:....یہ حدیث کسی بھی نقل و روایت کے اعتبار سے ایسی معتمد اسلامی کتاب میں نہیں ہے جس کی طرف علوم منقولہ کیلئے رجوع کیا جاتا ہو، محدثین کے ہاں یہ روایت ایک جھوٹ گھڑ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ [1] ٭منبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر امیر معاویہ کے بعد ایسے لو گ بھی چڑھے جن سے امیر معاویہ باتفاق مسلمین بہت بہتر تھے، اگر صرف منبر پر چڑھنے کی وجہ سے قتل واجب ہوتا تو ان تمام لوگوں کاقتل واجب ہوگیا تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر وہ یمن میں تھا: فتح مکہ کے موقع پر امیر معاویہ یمن میں تھے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتے تھے اور اس نے اپنے والد صخر بن حرب کے نام ایک خط لکھ کر اسے اسلام قبول کرنے پر عار دلائی اور یہ کہا : ’’کیا تم نے بدل کر محمد کا دین اختیار کر لیا ہے ۔‘‘ جواب:.... یہ ایک کھلا ہوا اور صاف جھوٹ ہے۔بلاشک و شبہ حضرت امیر معاویہ مکہ میں مقیم تھے۔ یمن میں نہیں تھے اور ان کے والد ابو سفیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ میں داخل ہونے سے قبل مر الظہران نامی جگہ پر اس وقت اسلام قبول کرچکے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں پڑاؤ ڈالا ہوا تھا۔ اس وقت حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ سفارش کی تھی کہ ابو سفیان شرف و منزلت کو پسند کرتا ہے [اس کی کچھ رعایت فرمائیے] تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا: ’’جو کوئی ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے وہ امن میں ہے۔اور جو کوئی مسجد الحرام میں داخل ہوجائے وہ امن میں ہے۔اور جو کوئی اپنے گھر کا دروازہ بند کردے وہ امن میں ہے۔‘‘[2]
Flag Counter